نیگلیریا اورکانگووائرس

254

مظفراعجاز
(دوسرا اور آخری حصہ)
نیگلیریا اور کانگووائرس کی بھیڑ چال سے لوگ نماز روزہ اور قربانی سے تو نہیں رکے لیکن خوف زدہ ضرور ہو گئے۔ہم نے کئی ڈاکٹروں سے معلومات کیں سب ہی کی رائے یہ تھی کہ نیگلیریااور کانگو وائرس سے پھیلنے والا ہیمر ہیجک فیور یقیناً بیماریاں ہیں8 ان سے لوگ متاثر بھی ہوتے ہیں لیکن ان کے بارے میں کوئی یہ نہیں بتا سکا کہ پاکستان میں سو فی صد کسی مریض کو کا نگو وائرس سے ہیمر ہیجک فیورہوا اور وہ اس سے مر گیا۔ اس حوالے سے آغا خان کے ہیڈ آف ریسرچ ڈاکٹر عبدالواسع شاکر سے ہم نے معلومات کیں تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں کچھ لوگوں کے بارے میں شبہات ضرور ظاہر کیے جاتے تھے انہوں نے بتایا کہ دراصل بعض اوقات ڈینگی کے مریض کو کانگو وائرس کا شکار سمجھ لیا جاتا ہے کیوں کہ دونوں کی علامات میں یکسانیت پائی جاتی ہے نیگلریا اور کانگو کے حوالے سے جوکچھ میڈیا میں دکھایا اور بتایا جا رہا ہے اس میں کوئی صداقت نہیں اور مفروضوں کو ہولناک کہانی بنا دیا گیا ہے۔
ویسے یہ حیرت انگیز بات ہے کہ جس طرح نیگلیریا کا خوف پھیلایا گیا گاؤں دیہات میں صاف پانی ملتا ہی نہیں وہاں نیگلیریا کے مریض لاکھوں میں ہونے چاہیے تھے اسی طرح بکروں اوردیگر جانوروں کے باڑے یا فارم میں وہ صفائی تو ہوتی ہی نہیں جس کا آج کل مویشی منڈی میں چرچا ہے اسپرے کیا ہوتا ہے اور دوا کیسے کہتے ہیں وہ لوگ جانتے ہی نہیں۔ دن رات جانوروں کے درمیان رہتے ہیں سارا سال مویشی بانی کرتے ہیں لیکن سال کے 11 مہینے کہیں کانگو وائرس کام نہیں کرتا۔ اور مویشی باڑے یا فارم میں کام کرنے والے مرتے بھی نہیں۔ ہاں جو احتیاطی تدابیر بتائی جارہی ہیں وہ تو ہر حال میں ایک مسلمان کو اختیار کرتی چاہئیں۔ صاف ستھرے کپڑے پہننا، جانور کو صاف جگہ باندھنا اس کی صفائی کا انتظام کرنا۔ مویشی منڈی جا کر واپس آئیں تو کپڑے جھاڑ لینا نہانا دھونا یہ سب تو ویسے بھی ایک مسلمان کا معمول ہونا چاہیے اور ہے۔۔۔
لگے ہاتھوں ہم نے ڈاکٹر واسع سے پوچھا کہ انسانی اعضا کی پیوند کاری کے لیے کیا طریقہ کار ہوتا ہے فوراً سمجھ گئے کہنے لگے یہ تو آپ پہلے بھی لکھ چکے بچوں کے اغوا سے متعلق پوچھ رہے ہیں ہم نے کہا ہاں۔ انہوں نے کہا کہ یہ جو کہا جارہا ہے کہ اعضا نکال کر دوسروں کو لگائے جارہے ہیں اس کے لیے یہ بنیادی اصول ہے کہ ان اعضا کو نکالنے اور لگانے کا عمل عموماً ایک ہی جگہ ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس میں ایک سے تین گھنٹے کا وقت در کار ہوتا ہے۔ تیسرے یہ کہ اگر نہایت احتیاط کے ساتھ بھی یہ کام کیا جائے تو انسانی اعضا کسی ماہر سرجن کے ذریعے ہی نکالے جاسکتے ہیں اس کے لیے معقول آلات اور جگہ درکار ہوتی ہے ایسا نہیں ہے کہ کسی کچی آبادی میں یہ آپریشن کرلیا جائے اس کے لیے تو ٹرانسپلانٹ سرجن کی ضرورت ہوتی ہے اور پاکستان میں گنتی کے ایسے سرجن ہیں۔
لیجیے! اب آپ خبروں کو ملا حظہ فرمائیں۔ فلاں علاقے میں جھاڑیوں سے بچے کی لاش ملی جسم کھلا ہوا تھا سینا چاک تھا دل، گردہ، کلیجہ، پھیپھڑے سب کچھ صاف تھا۔ باخبر ذرائع کے مطابق ایک گروہ سمندر کے راستے بچوں کے اعضاء ہندوستان بھجوا رہا ہے۔ ذرا تصور کیجیے ایسی خبریں چھاپنے اور نشر کرنے والے بڑے چھوٹے سب ہی اخبارات اور ٹی وی چینلز ہیں گویا انسانی اعضا اور ان کی پیوند کاری نہیں بلکہ بکرے کا گردہ ہے فریز سے نکالو اور پکالو۔ ہمارے میڈیا کے مالکان کو تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ ریٹنگ کے چکر میں سنسنی پھیلا رہے ہیں لیکن ایک سیاسی جماعت جو تبدیلی کی دعویدار ہے اس کے رہنما پیر کے روز ٹی وی چینل پر مصر تھے کہ پنجاب میں سات سو بچے اغوا ہوئے ہیں جب کہ ان کو بتایا جارہا تھا کہ ساڑھے چھ سو سے زائد یا زیادہ ہو چکے ہیں اور ان میں سے بیش تر گھروں سے بھاگے تھے لیکن وہ چیخ چیخ کر یہی کہہ رہے تھے کہ بچے اغوا ہو رہے ہیں اور اعضا فروخت ہو رہے ہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا سے گزارش ہی کی جاسکتی ہے کہ خدا کے واسطے بے بنیاد باتوں کو آگے بڑھانے سے پہلے تصدیق کرلیں۔ ہم دوسروں کو کیا کہیں اپنے ہی ساتھی کبھی دائیں سے نکل جاتے ہیں اور کبھی بائیں سے نکل کر کانگو اور نیگلیریا کی خبر چلا دیتے ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ اگر خبر نہیں چلائی تو دوسرے اخبار والے کیا کہیں گے۔ قارئین اور ناظرین سے کچھ کہنے کا وقت شاید گزر گیا ہے۔ ہمارے ٹی وی اور میڈیا زدگان کا یہ حال ہے کہ اگر نیو یارک کی برف باری دکھائی جائے تو کراچی میں انہیں سردی محسوس ہونے لگتی ہے۔ عام طور پر سنا ہے کہہ کر گفتگو شروع کی جاتی ہے کہ سنا ہے بچے اغوا ہو رہے ہیں سنا ہے یہ ہونے والا ہے۔ وہ ہونے والا ہے۔ پتا نہیں ہم کب ذمے دار قوم بنیں گے۔