یوپی میں وزیر اعلیٰ مسلمان: سیاسی کھیل یا مذاق؟

288

حفیظ نعمانی
ہندوستان میں تقسیم کے بعد امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒ نے اسی لکھنؤ میں 1948میں مسلمانوں کو مشورہ دیا تھا کہ تم اپنی کوئی الگ سیاسی جماعت نہ بنانااور جس سیاسی پارٹی کے نظریات سے تم اتفاق کرو اس میں شامل ہوجانا،ہم اس بات کو گرہ میں باندھے ہوئے ہیں۔ دو برس پہلے تک حالات دوسرے تھے اور اب جو حالات ہیں وہ حکومتوں اور پارٹیوں کی 68سالہ بدکاریوں کا نتیجہ ہیں، آزادی کے بعد یہ تو سوچا جاسکتا تھا کہ کانگریس کی حکومت اگر نہیں ہوئی تو سوشلسٹ پارٹی یا کمیونسٹ پارٹی کی حکومت بن جائے گی، لیکن یہ تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کبھی ہندو مہا سبھا یا آر ایس ایس کی بھی حکومت بن جائے گی اور حالت یہ ہوجائے گی کہ صرف اتنی سی بات پر کہ پاکستان جہنم نہیں ہے، وہاں بھی ہم جیسے لوگ ہی رہتے ہیں، ملک سے بغاوت کا مقدمہ قائم ہوجائے گا اور مہاراشٹر میں اگر سپریم کورٹ کے فاضل جج دہی ہانڈی کو پھوڑنے کی رسم ادا کرنے کے لیے اسے 40فٹ اوپر ٹانگنے کے بجائے 20فٹ اوپر ٹانگنے اور اسے پھوڑنے کے لیے لڑکوں کے اوپر چڑھنے والے لڑکوں کی عمر ۱۸ سال سے کم عمر نہ ہونے کا حکم دیں گے تو ہانڈی پھوڑنے والے اعلان کردیں گے کہ یہ فیصلہ صوبائی حکومت کرے گی، سپریم کورٹ کو حکم دینے کا حق نہیں ہے، اور پولیس کہہ دے گی کی ہزاروں ملزموں کے خلاف کہاں مقدمے قائم کریں اور کس عدالت کو اتنی فرصت ہے؟
ان حالات میں یہ اعلان کیا موریہ، کیا ٹھاکر، کیاپنڈت پنڈت جی بھی کریں کہ اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ ایک مسلمان ہوگا تو اس سے بڑا مذاق کوئی نہیں ہے، جس ملک میں مسلمان آئی اے ایس اور مسلمان پی سی ایس وہ چاہے کتنے ہی قابل اور ایماندار ہوں ان کو ڈی ایم یا ایس ایس پی بنانا برداشت نہیں، انھیں کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا اوایس ڈی بنادیا جاتا ہے یا کسی بے اثر یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنادیا جاتا ہے اور جب وہ تعلیمی اداروں کی خاک چھانتے چھانتے آئی جی ہوجاتے ہیں تو انہیں آئی فائر بنا دیا جاتا ہے جس کا دفتر دو کمروں میں اور جس کا اسٹاف تین ملازم ہوتے ہیں اوریہ آخر کار ریٹائرکردیا جاتا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ تھانے دار اگر انسپکٹر ہوجائے تو اسے یا سی آئی ڈی میں بھیج دیا جاتا ہے یا کسی افسر کے دفتر میں لگادیا جاتا ہے، تھانے یا کوتوالی کا انچارج نہیں بنایا جاتا۔اس ملک اور ملک کے صوبوں میں مسلمان وزیر اعلیٰ بنانے یا بننے کا خواب دیکھنے والے سے زیادہ بے وقوف دوسرا نہیں مل سکتا۔
ایک بار اندرا جی سے کسی نے کہا یا انہیں خود خیال آیا کہ مسلمان صدر جمہوریہ بھی بن رہے ہیں، مرکزی وزیر اور صوبوں میں وزیر بھی بن رہے ہیں لیکن کشمیر کے علاوہ کہیں مسلمان وزیر اعلیٰ نہیں ہے۔ طاقت کے نشہ میں چور اندراجی نے مہاراشٹر میں عبدالرحمن انتولے کو، راجستھان میں برکت اللہ چوہان کو، بہار میں عبدالغفور کو اورآسام میں انورہ تیمور کو وزیر اعلیٰ بنا دیا، یہ بات حکومت چلانے والے سکریٹریوں کو اعلیٰ افسروں کو، کمشنروں کو اور صاحب بہادر کہلائے جانے والے کلکٹروں کو کیسے برداشت ہوسکتی تھی کہ جن مسلمانوں کی 8سو برس غلامی سے انگریزوں نے نجات دلائی تھی ان کی ہی پھر غلامی کریں۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ خود اندرا جی کو اندازہ ہوگیا کہ بغاوت ہوجائے گی اور ہندو افسر مسلمان وزیر اعلیٰ کوبرداشت نہیں کریں گے۔اس کا نتیجہ تھا کہ چھ مہینے میں چاروں پر الزام لگے اور سب سے استعفے لے لیے گئے۔
اب ایک مسلمان وزیر اعلیٰ کے امیدوار بن کر میدان میں آئے ہیں وہ ایک اخبار کے پہلے صفحہ پر پورے صفحہ کا اشتہار مہینوں سے چھپوا رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس اخبار کے پڑھنے والوں کے ووٹوں سے ۴۰۳ امیدواروں کو اترپردیش میں کامیاب کرا لیں گے، ہم ایک مخلص کی حیثیت سے انھیں بتانا چاہتے ہیں کہ ہر اخبار کا حلقہ الگ ہوتا ہے اردو اخبار صرف مسلمان پڑھتے ہیں، ان کی یہ حیثیت نہیں ہے کہ وہ اردو کا ہر اخبار خرید لیں۔ اب جو لکھنؤ سے نکلنے والے سہارا، اودھ نامہ، آگ، صحافت اردو، محاذ جنگ اور دوسرے اخبار ہیں انہیں کیا معلوم کہ وزیر اعلیٰ کا امیدوار ایک مسلمان بھی ہے؟ جس اردو ا خبار میں ہونے والے وزیر اعلیٰ کا اشتہار مسلسل چھپ رہا ہے وہ ہند ی اخبار دینک جاگرن کی ملکیت ہے جو بی جے پی یعنی امت شاہ کا اخبار ہے، امت شاہ اگر اشتہار کے پیسے دینا چاہیں گے تو اخبار کے مالکان ہاتھ جوڑ کر کہہ دیں گے کہ بس آپ اتنا کرم کیجیے کہ ہم نے جو اعدادو شمار ڈی اے وی پی میں دے رکھے ہیں ان پرقلم نہ لگنے دیجیے، اشتہار چھپتا رہے گا۔
ہمارے پاس صوبہ سے نکلنے والے تمام اخبار نہیں آتے، ہوسکتا ہے دوسرے اخباروں میں اور دوسری زبانوں میں بھی اشتہار چھپ رہے ہوں، اورجب بات مسلمان وزیر اعلیٰ کی ہے تو یہ اس سے بھی زیادہ اہم ہے، جتنی 2014میں مودی جی کے لیے تھی، اس لیے ٹی وی کے ہر چینل پر اس کے اشتہار اورامیدوار کے ساتھ موریہ صاحب کی تقریریں بھی آنا چاہئیں اور وہ جو بزرگ صحافی مسٹر کلدیپ نیرؔ صاحب نے لکھا تھا کہ مودی کے الیکشن میں پانچ ہزار کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں تو اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کے امیدوار کو پانچ سو کروڑ تو خرچ کرنا ہی ہوں گے، اس کابھی انتظام کرنا چاہیے، اورپھر میدان میں اترنا چاہیے۔
ڈاکٹر اورموریا کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ مایاوتی اوراویسی ہوں گے، مس مایاوتی نے سو مسلمان امیدوار کھڑے کردیے ہیں، اور انھوں نے برہمنوں کو بی جے پی اور کانگریس کے لیے چھوڑ دیا ہے، وہ صرف مسلمان اور دلت کے ۴۱ فی صدی ووٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں، اویسی بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ مایاوتی کے علاوہ کسی دوسری پارٹی سے اتحاد نہیں کریں گے، اب مسئلہ ایک اناراور سو بیمار کا ہے۔ ڈاکٹر ایوب صاحب ہوں یا اسد الدین اویسی، وہ حکومت تو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں اور سہارا دلتوں سے لینا چاہتے ہیں، مس مایاوتی حکومت اپنے ہاتھ میں رکھیں گی اور سہارا مسلمانوں سے لیں گی، مسلمانوں میں خاص کر ان اضلاع میں جہاں کے ڈاکٹر ا یوب صاحب رہنے والے ہیں وہاں آج بھی دلتوں کو اجازت نہیں ہے کہ مسلمانوں کے برابر بیٹھ جائیں۔
ایک دوست جن کا ایک وزیر سے کام پھنسا ہوا تھا وہ ہم سے سفارش کرانا چاہتے تھے، ان کا گھر منتری جی سے قریب تھا، ہم گھر سے نکل کر اپنے دوست کے گھر چلے گئے، وہ فائل لیے ہوئے تیار تھے، ہمارے ساتھ ہی بیٹھ گئے، جیسے ہی مڑ کر سڑک پر آئے سامنے سے ایک مہترانی کولہے پر ٹوکرا لیے ہوئے نکل گئی، ان کے منہ سے نکلا رو کو روکو، ہم نے کہا کہ کیا رہ گیا؟ کہنے لگے اب کل چلیں گے،سامنے سے مہترانی نے راستہ کاٹ دیا، اب ہرگز کام نہیں ہوگا، اوروہ لاکھ سمجھانے کے بعد بھی نہیں گئے جب کہ کام ان کا تھا۔