قربانی کے فضائل و مسائل

977

قربانی کرنا واجب ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد ہر سال قربانی فرمائی کسی سال ترک نہیں فرمائی، جس عمل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لگاتار کیا اور کسی سال بھی نہ چھوڑا ہو تو یہ اس عمل کے واجب ہونے کی دلیل ہے۔ علاوہ ازیں آپ نے قربانی نہ کرنے والوں پر وعید ارشاد فرمائی، حدیث پاک میں بہت سی وعیدیں ملتی ہیں مثلاً آپ کا یہ ارشاد کہ جو قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے، علاوہ ازیں خود قرآن میں بعض آیات سے بھی قربانی کا وجوب ثابت ہے، جو لوگ حدیث پاک کے مخالف ہیں اور اس کو حجت نہیں مانتے وہ قربانی کا انکار کرتے ہیں ان سے جو لوگ متاثر ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ پیسے دے دیے جائیں یا یتیم خانہ میں رقم دے دی جائے یہ بالکل غلط ہے۔ کیونکہ عمل کی ایک تو صورت ہوتی ہے دوسری حقیقت ہے۔ قربانی کی صورت یہی ضروری ہے، اس کی بڑی مصلحتیں ہیں اس کی حقیقت اخلاص ہے۔ آیت قرآنی سے بھی یہی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔
مسند احمد کی روایت میں ایک حدیث پاک ہے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا قربانی تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت ہے۔ صحابہ نے پوچھا ہمارے لیے اس میں کیا ثواب ہے؟ آپ نے فرمایا ایک بال کے عوض ایک نیکی ہے، اون کے متعلق فرمایا اس کے ایک ایک بال کے عوض بھی ایک نیکی ہے۔
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قربانی کے دن اس سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں۔ قیامت کے دن قربانی کا جانور سینگوں، بالوں، کھروں کے ساتھ لایا جائے گا اور خون کے زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے یہاں قبولیت کی سند لے لیتا ہے اس لیے تم قربانی خوش دلی سے کرو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قربانی سے زیادہ کوئی دوسرا عمل نہیں الاّ یہ کہ رشتہ داری کا پاس کیا جائے۔ (طبرانی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی قربانی ذبح ہوتے وقت موجود رہو کیونکہ پہلا قطرہ خون گرنے سے پہلے انسان کی مغفرت ہوجاتی ہے۔
قربانی کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث ہیں اس لیے اہل اسلام سے درخواست ہے کہ اس عبادت کو ہرگز ترک نہ کریں جو اسلام کے شعائر میں سے ہے اور اس سلسلہ میں جن شرائط و آداب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے انہیں اپنے سامنے رکھیں اور قربانی کا جانور خوب دیکھ بھال کر خریدیں۔ قربانی سے متعلق مسائل آئندہ سطور میں درج کیے جارہے ہیں:
مسائل قربانی:
مسئلہ نمبر 1۔ جس شخص پر صدقہ فطر واجب ہے اس پر قربانی بھی واجب ہے۔
یعنی قربانی کے تین ایام (10/11/12/ذوالحج) کے دوران اپنی ضرورت سے زائد اتنا حلال مال یا اشیاء جمع ہوجائیں کہ جن کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو تو اس پر قربانی لازم ہے، مثلاًرہائشی مکان کے علاوہ کوئی مکان ہو خواہ تجارت کے لیے ہو یا نہ ہو اسی طرح ضروری سواری کے طور پر استعمال ہونے والی گاڑی کے علاوہ گاڑی ہو تو ایسے شخص پر بھی قربانی لازم ہے۔
مسئلہ نمبر2: مسافر پر قربانی واجب نہیں۔
مسئلہ نمبر3: قربانی کا وقت دسویں تاریخ سے لے کر بارہویں تاریخ کی شام تک ہے، بارہویں تاریخ کا سورج غروب ہوجانے کے بعد درست نہیں۔ قربانی کا جانور دن کو ذبح کرنا افضل ہے اگرچہ رات کو بھی ذبح کرسکتے ہیں لیکن افضل بقر عید کا دن پھر گیارہویں اور پھر بارہویں تاریخ ہے۔
مسئلہ نمبر4: اگر مسافر مالدار ہو اور کسی جگہ پندرہ دن قیام کی نیت کرے، یا بارہویں تاریخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے گھر پہنچ جائے، یا کسی نادار آدمی کے پاس بارہویں تاریخ کو غروب شمس سے پہلے اتنا مال آجائے کہ صاحب نصاب ہوجائے تو ان تمام صورتوں میں اس پر قربانی واجب ہوجاتی ہے۔
نیز اگر مسافر مالدار ہو دوران سفر قربانی کے لیے رقم بھی ہو اور وہ پندرہ دن سے کم عرصہ کے لیے رہائش پذیر ہو نے کے باوجود بآسانی قربانی کرسکتا ہو تو قربانی کرلینا بہتر ہے۔
مسئلہ نمبر5: قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا زیادہ اچھا ہے اگر خود ذبح نہ کرسکتا ہو تو کسی اور سے بھی ذبح کراسکتا ہے۔ بعض لوگ قصاب سے ذبح کراتے وقت ابتداءً خود بھی چھری پر ہاتھ رکھ لیا کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ قصاب اور قربانی والے دونوں مستقل طور پر تکبیر پڑھیں، اگر دونوں میں سے ایک نے نہ پڑھی تو قربانی صحیح نہ ہوگی۔ (شامی)
مسئلہ نمبر6: قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت زبان سے نیت پڑھنا ضروری نہیں دل میں بھی پڑھ سکتا ہے۔
مسئلہ نمبر 7: قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت اس کو قبلہ رخ لٹائے اور اس کے بعد یہ دعاء پڑھے:
اِنِّی وَجَّھتْ وَجھِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰواتِ وَالاَرضَ حَنِیفًا وَّمَا اَنَا مِنَ المْشرِکِینَo اِنَّ صَلَا تِی وَنْسْکِی وَمَحیَایَ وَمَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِینَo لَاشَرِیکَ لَہ وَبِذٰلِکَ اْمِرتْ وَاَنَا اَوَّلْ المْسلِمِینَ اَللّٰھْمَّ مِنکَ وَلَکَ اس کے بعد بِسمِ اللِہ اَللہْ اَکبَرْ کہہ کر ذبح کرے۔
(سنن ابی داؤد)
ذبح کرنے کے بعد یہ دعاء پڑھے:
اَللّٰھْمَّ تَقَبَّلہْ مِنِّی کَمَا تَقَبَّلتَ مِن حَبِیبِکَ مْحَمَّدٍ وَخَلِیلِکَ اِبرَاہِیمَ عَلَیہِمَا الصَّلَوٰۃْ وَالسَّلَامْ
مسئلہ نمبر8: قربانی صرف اپنی طرف سے کرنا واجب ہے۔ اولاد کی طرف سے نہیں۔ اولاد چاہے بالغ ہو یا نابالغ، مالدار ہو یا غیر مالدار۔
مسئلہ نمبر 9: درج ذیل جانوروں کی قربانی ہوسکتی ہے:
اونٹ، اونٹنی، بکرا، بکری، بھیڑ، دنبہ، گائے، بیل، بھینس، بھینسا۔
بکرا، بکری، بھیڑ اور دنبہ کے علاوہ باقی جانوروں میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں بشرطیکہ کسی شریک کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو اور سب قربانی کی نیت سے شریک ہوں یا عقیقہ کی نیت سے، صرف گوشت کی نیت سے شریک نہ ہوں۔
گائے بھینس اور اْونٹ وغیرہ میں سات سے کم افراد بھی شریک ہو سکتے ہیں اس طور پر کہ مثلاً چار آدمی ہوں تو تین افراد کے دو دو حصے اور ایک کا ایک حصہ ہوجائے نیز اگر پورے جانورکو چار حصوں میں تقسیم کرلیں یہ بھی درست ہے۔ یا یہ کہ دو آدمی موجود ہوں تو نصف نصف بھی تقسیم کرسکتے ہیں۔ (بشکریہ ماہنامہ بینات)