لندن ( تجزیاتی رپورٹ/ خالد ایچ لودھی) حکومت پاکستان کی جانب سے برطانوی حکومت کو ایم کیوایم کے بانی اور تاحال قائد الطاف حسین کے خلاف ریفرنس مل چکا ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے برطانوی حکومت کو بھیجا جانے والا یہ ریفرنس تیسرا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم تھریسامے جب وزیر داخلہ تھیں اس وقت بھی اس ضمن میں ان ریفرنسوں کے حوالے سے خاص سرگرمی دیکھنے میں آئی تھی، تھریسامے بطور برطانوی
وزیر داخلہ اس ہائی پروفائل کیس کے حوالے سے پاکستان جا کر پاکستانی وزارت داخلہ کے ساتھ حساس معلومات کا تبادلہ کرچکی ہیں لیکن اب موجودہ صورت حال میں برطانوی حکام کے اعلیٰ ذمہ داروں کی نظر میں موجودہ ریفرنس جو برطانوی حکومت کو ملا ہے اس میں ٹھوس شواہد کا فقدان ہے یعنی یہ کہ الطاف حسین کے خلاف حکومت پاکستان کا مقدمہ انتہائی کمزور ہے جس کی بنیاد پر الطاف حسین کے خلاف سرزمین برطانیہ پر کسی قسم کی قانونی کارروائی کا فی الحال کوئی جواز نہیں ہے۔
ماضی میں حکومت پاکستان کے دونوں ریفرنس جو کہ اسی طرح کے حقائق پر مبنی تھے ان پر بھی برطانوی حکومت نے حوصلہ افزا جواب نہیں دیا تھا حالانکہ ان تمام ریفرنسوں میں الطاف حسین کے خلاف بڑے واضح ثبوت فراہم کیے گئے تھے کہ وہ پاکستان میں پرتشدد واقعات پر اکسانے کے مرتکب ہوئے ہیں اور پاکستان کی سالمیت کے خلاف برطانوی سرزمین کو استعمال کرتے چلے آرہے ہیں ۔ برطانیہ کے علاوہ امریکا، جنوبی افریقہ اور دیگر ممالک میں بسنے والے تارکین وطن کو پاکستان کی مسلح افواج اور پاکستان کے قومی ادارو ں کے خلاف ابھارتے رہے ہیں۔ان تمام حقائق کی روشنی میں برطانوی قوانین کے مطابق برطانوی شہری الطاف حسین کے خلاف تشدد کے لیے اکسانے کا مقدمہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ حکومت پاکستان مسلسل الطاف حسین کے خطاب کا متن اور دیگر پاکستان مخالف مواد برطانیہ کے اعلیٰ حکام کو باضابطہ طور پر فراہم کرتی رہی ہے۔ جو اس امر کے واضح ثبوت ہیں کہ الطاف حسین لندن میں بیٹھ کر پاکستان میں بدامنی پھیلانے اور نجی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے ذمے دار ہیں ۔ برطانوی میڈیا خاص طور پر 2013میں خود برطانوی اخبار گارجین کی ایک خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ الطاف حسین لندن میں ایک منظم طریقے سے جس ایجنڈے پر عمل کررہے ہیں اس کے مطابق ان کی جماعت پاکستان میں پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہے اور الطاف حسین کو مغربی خفیہ ایجنسیوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے ۔
ایم کیو ایم میں برطانیہ کے مفاد کی وجہ ایم آئی سکس (MI6)کی دلچسپی ہے۔ جو کراچی جیسے شہر میں ایک خاص ایجنڈے کے تحت امریکا اور برطانیہ کے مفادات کو آگے بڑھانا ہے۔ الطاف حسین کی غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ وابستگی اب کھل کر سامنے آچکی ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’ را‘‘ کے علاوہ ایم آئی سکس، امریکی سی آئی اے یہ تمام خفیہ ایجنسیاں کسی نہ کسی حوالے سے الطاف حسین کو اپنا آلہ کار بنائے ہوئے ہیں ۔ اور ان کے ذریعے کراچی کو کنٹرول کرواتی چلی آرہی ہیں ۔2001 میں الطاف حسین کا برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے نام خط بھی ریکارڈ کا حصہ ہے جس میں الطاف حسین نے اپنی جماعت کو برطانوی مفادات کے لیے اپنی خدمات پیش کر کے جاسوسی کی کھلم کھلا پیش کش کی تھی۔ 23ستمبر 2001کو الطاف حسین کے اس خط کے بارے میں خود برطانوی رکن پارلیمنٹ نے جن کا تعلق مشرقی برطانیہ سے تھا اس خط کو برطانوی وزیر اعظم کے دفتر تک پہنچانے کا اقرار کیا تھا۔ اس خط کے مندرجات سراسر پاکستان کے مفادات کے منافی تھے۔ ماضی میں یہ سب کچھ کیوں ہوتا رہا۔
آخر الطاف حسین منی لانڈرنگ اور ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے بھی برطانوی پولیس کی تحقیقات میں برابر شریک رہے ہیں ان دونوں مقدمات کے شواہد بھی الطاف حسین کے خلاف بڑے واضح اشارے دیتے آرہے ہیں اس کے باوجود الطاف حسین کے خلاف کارروائی کا نہ ہونا ایک جانب تو پاکستان کے حکمران مافیا کا مفاد ہے کہ ایم کیو ایم کو برابر شریک اقتدار رکھ کر اپنا اپنا اقتدار مضبوط بنایا جائے اور دوسری جانب غیر ملکی طاقتوں کا اپنا مخصوص ایجنڈا ہے جو کہ وہ الطاف حسین کو استعمال کر کے پورا کرنا چاہتی ہیں، یہ حقیقت ہے کہ الطاف حسین غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے لیے ’’ سونے کی چڑیا‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں اور وہ ہر حال میں اپنا ایجنڈا پاکستان میں حکمران مافیا کے ساتھ مل کر پورا کروانا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب اب یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ بیرون ملک پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا وجود کسی طرح سے بھی ملکی مفاد میں نہیں ہے اور ساتھ ہی بیرون ملک پاکستان کے سیاستدانوں کی خود ساختہ جلا وطنی بھی پاکستان کی سالمیت کے لیے خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اب بیرون ملک پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے قیام اور سرگرمیوں کو ملکی مفاد کے خلاف قرار دیا جائے اور بیرون ملک خود ساختہ جلا وطنی میں زندگی گزارنے والے سیاستدانوں کو پاکستان کی عملی سیاست میں شجر ممنوعہ قرار دیا جائے۔ اسی میں پاکستان کی سلامتی ہے۔