باب دوستی اور دوستی

201

افغانستان نے 18 اگست کو پاکستان مخالف نعروں اور پاکستانی پرچم جلانے پر سرکاری طور پر تحریری معذرت کرلی ہے۔ اس موقع پر دونوں ممالک کے درمیان تعمیر کردہ باب دوستی پر مشتعل افغانوں نے پتھراؤ کرکے شیشے بھی توڑ دیے تھے جس کے بعد سے یہ باب دوستی بند تھا۔ پاکستان دشمن عناصر نے باب دوستی کو باب دشمنی بنا ڈالا۔ تاہم کابل حکومت کی طرف سے معذرت کے بعد 14 دن سے بند یہ باب دوستی کھل رہا ہے۔ پاک افغان سرحدی وفود میں ملاقات کے دوران میں افغان وفد کا کہنا تھا کہ 18 اگست کا واقعہ دو برادر مسلم ممالک کے درمیان نفرت پیدا کرنے کے لیے دشمن کی چال تھی اور آئندہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ اس معذرت کو جوں کا توں قبول کرلینا چاہیے تاہم کابل انتظامیہ کو اس دشمن کا سراغ لگانا چاہیے جو نفرت پیدا کرنا چاہتا ہے۔ گو کہ یہ دشمن نا معلوم بھی نہیں۔ نئی دہلی اور کابل حکومت میں جو گٹھ جوڑ ہو رہا ہے وہ بے مقصد نہیں۔ پاک افغان سرحدوں پربھارت کے کئی دفاتر کا قیام بھی بے وجہ نہیں ہے۔ باب دوستی بند ہونے کا سب سے زیادہ نقصان دونوں طرف کے تاجروں کا ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق روزانہ چھ سو ٹرک ادھر سے ادھر آتے جاتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق پھلوں سے لدے ہوئے جو ٹرک افغانستان کی حدود میں رکے ہوئے تھے، ان پر موجود پھل اور خشک میوہ بھی پاکستانی تاجروں کا تھا جو معمول کے مطابق افغانوں کو پیشگی ادائیگی کر دیتے ہیں۔ گویا پاکستانی تاجر زیادہ نقصان میں رہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی تاجروں کا یہ مال بھارت جا رہا ہے جو روزانہ دو کار گو طیارے افغانستان بھیج رہا ہے۔ باب دوستی تو کھل گیا لیکن کیا پاک افغان دوستی کے دروازے بھی کھلیں گے۔ کابل حکومت تو سیکڑوں پاکستانی مزدوروں کو نکال رہی ہے، جن کو تشدد کا شکار بھی کیا جارہا ہے۔