لگتا ہے کوئی بات ہوگئی ہے

233

میر شاہد حسین
’’کیا بات ہے آج بہت غصے میں بیٹھے ہو؟ باہر اتنا اچھا بارش کا موسم ہے اور تم گھر میں اس طرح بیٹھے ہو؟‘‘
’’بس اب مزید میراموڈ خراب مت کرنا۔۔۔ میں باہر سے بارش کے مزے لے کر ہی آرہا ہوں۔‘‘
’’بارش کے مزے لینے کے بعد میں نے پہلی بار کسی کو غصہ میں دیکھا ہے۔ لگتا ہے کوئی بات ہوگئی ہے۔‘‘
’’کوئی ایسی ویسی ۔۔۔ غضب خدا کا کوئی حد ہوتی ہے۔۔۔ ‘‘
’’اب کیا ہوگیا؟ تمہارے ساتھ تو کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا ہے۔‘‘
’’ہاں میرے ساتھ جو مرضی ہو لیکن اب ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے جو آج ہوا ہے۔‘‘
’’پہیلیاں ہی بوجھواؤ گے یا کچھ بتاؤ گے بھی۔۔۔‘‘
’’ہماری گلی میں بارش کا پانی کھڑا ہے، کوئی بات نہیں۔ ہمارے علاقہ کی سڑک پر پانی کھڑا ہے، کوئی بات نہیں۔ لیکن ۔۔۔‘‘
’’لیکن کیا۔۔۔؟ جب کوئی بات نہیں ہے تو۔‘‘
’’لیکن اب ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ جن کے لیے یہ ملک بنا ہے، ’ویری امپارٹنٹ پرسنز‘ vip کے لیے بنائی گئی شاہراہ بھی پانی میں ڈوبی رہے وہ بھی بارش کے جانے کے کئی گھنٹوں بعد تک بھی۔‘‘
’’اس میں ان کا قصور کم بارش کا زیادہ ہے۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’بارش بتا کر جو نہیں آتی۔‘‘
’’جب بتا کر آتی ہے جب کون سا انتظام کرلیا جاتا ہے۔ پھر انتظام کرنے کی بھی کیا ضرورت ہے اگر سسٹم خود کام کررہا ہو۔‘‘
’’سسٹم خود کام جب کرتا ہے جب سسٹم چلانے والا کام کرتا ہے۔‘‘
’’سسٹم چلانے والے تو بس فوٹو سیشن تک محدود ہیں، سسٹم پر توجہ دیں تو پھر ان کو کون پوچھے گا؟‘‘
’’چلو سندھ کے وزیراعلیٰ سائیں تو ابھی نئے نویلے ہیں لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو تو اب تک لاہور میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دینی چاہیے تھیں۔ وہاں بھی بارش اپنا کام دکھا گئی ہے۔‘‘
’’لاہور پر تو ملک بھر کا پیسہ لگ رہا ہے پھر بھی اگر ایسا ہو تو ان کو تو بارش کے پانی میں ہی ڈوب کر مسئلے کا حل نکال لینا چاہیے۔‘‘
’’میرے خیال میں یہ حکمران چاہتے ہی نہیں کہ مسائل حل ہوں۔ کیوں کہ جب تک مسائل ہیں، عوام ان حکمرانوں کے در پر حاضری دیتے رہیں گے۔ ‘‘
’’مسائل کو تو حل نہیں ہونا لیکن عوام ان ہی حکمرانوں کو بار بار ووٹ کیوں دیتے ہیں۔‘‘
’’جب عقل پر تعصب کی پٹی بندھی ہو تو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ پھر جسے ایک وقت کی روٹی کی فکر ہو وہ کہاں کل کی سوچ سکتا ہے۔‘‘
’’پاناما لیک سے بہت توقعات تھیں لیکن یہاں بھی لگتا ہے مک مکا ہوگیا ہے۔‘‘
’’پاناما لیک سے اب مزید کچھ لیک ہونے والا نہیں کیوں کہ حفاظتی ڈائپرز باندھ لیے گئے ہیں۔‘‘
’’پاناما لیک ہو یا نہ ہو لیکن بارش کے پانی کو ضرور لیک ہونا چاہیے۔‘‘
’’بارش کا پانی خدا کی نعمت ہے، اس گٹر زدہ ماحول میں جب ہر طرف گٹر اُبل رہے ہوں، بارش کا پانی ہی اسے بہا کر لے جاسکتا ہے۔‘‘
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ بارش کے پانی نے بہت سے نامعلوم افراد کو بھی دھو کر رکھ دیا ہے لیکن اس پانی کو کہیں نکلنے کا راستہ بھی تو ملنا چاہیے۔ آپ نے اس کا راستہ ہی بند کردیا ہے۔ بند گلیوں سے پانی نہیں نکلتا۔‘‘
’’کراچی میں کافی عرصے سے گٹر بہہ رہے ہیں اور وہ بھی بغیر ڈھکن کے، ان کی صفائی بہت عرصے سے نہیں کی گئی۔ جس نے بھی صفائی کی اوپر اوپر سے، نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ اب ان پر ڈھکن ڈال کر ابلنے بھی نہیں دیتے۔‘‘
’’میرے خیال سے گلیوں کے گٹر صاف کرنے سے بہتر تھا پہلے مین لائن کی صفائی کرلی جاتی، جو یقیناًاب ہوگی۔ مین لائن کی صفائی اگر ہوگئی تو مجھے یقین ہے کہ گٹر کے پانی کو اپنی منزل مل جائے گی۔‘‘
’’پانی تو اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے لیکن اس گٹر کے پانی کا کیا کریں جو بغیر رہنما کے آگے ہی نہیں بڑھتا، جب تک کوئی صفائی کے لیے اس میں اترے نہ۔‘‘
’’چلو دیکھتے ہیں جب تک اگلی بارش ہوتی ہے کس کو منزل ملتی ہے اور کس کو رہنما؟‘‘