مولوی پاکستان کا دشمن، ایک وضاحت

318

پروفیسر عنایت علی خان
20 اگست کے جسارت میں جناب نعمان حیدر کا درج بالا عنوان نظر سے گزرا جس میں موصوف نے ان الزامات سے بات شروع کی ہے کہ جو ’’لوگ‘‘ جشن آزادی کے موقع پر اہل مدارس کی عدم شرکت پر معترض ہوتے ہیں ان کے بعض اعتراض حق بجانب ہیں اور بعض ناحق ہیں۔ جشن میں عدم شرکت اور پرچم پاکستان کے عدم احترام کے جواب میں موصوف نے ماضی میں مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور ظفر احمد عثمانی کے پاکستانی پرچم لہرانے اور حال میں حضرات مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی محمد رفیع عثمانی کے اپنے ادارے میں چودہ اگست کو پرچم کشائی کرنے اور یہی عمل جامعہ رشیدیہ میں ہونے کو دلیل بنا کر ’’لوگوں‘‘ کے اعتراضات کو رد کیا ہے۔ لیکن ابتداء میں مولویوں اور بعض دینی اداروں کی اس روش پر اعتراض کیا ہے کہ وہ جشن میں شرکت نہ کرکے لوگوں کو انگشت نمائی کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ نیز یہ کہ تحریک پاکستان کی جدوجہد اور مسلمانوں کی بے مثالی قربانیوں کی یاد میں جشن نہ منانے پر تنقید کرتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ ’’جناب اپنے ادارے میں قومی پرچم لہرانے، اس دن قومی ترانہ اور شہداء کو ایصال ثواب کرنے سے کون سے اسلام کی مخالفت ٹھیر رہی ہے ذرا وضاحت تو کر دیں۔
تو جناب پرچم کا احترام کرنے والے معروف علما کے طرز عمل سے صرفِ نظر کرتے ہوئے موصوف کے اس چیلنج کا کہ ذرا وضاحت تو کردیں کے جواب میں مختصراً چند معروضات پیش کروں گا۔ سورۂ الحجرات کی ابتدائی آیت ہے۔ ترجمہ :’’اے ایمان والو اللہ اور رسول سے آگے نہ چلو اور خدا کا تقویٰ اختیار کرو، اللہ تعالیٰ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔‘‘ دوسری معروف آیت میں فرمایا گیا ہے کہ: ’’حقیقتاً تمہارے لیے اللہ کے رسول کا عمل زندگی گزارنے کا بہترین نمونہ ہے۔‘‘
آئیے ان دو آیات کے حوالے سے پاکستان کے پرچم کے احترام اور تقدس کا قضیہ طے کریں اور دیکھیں کہ آیا قرآن اور حدیث سے اس جشن اور پرچم کے احترام وتقدس کا کوئی جواز ملتا ہے۔ ہمیں تو قرآن کی تعلیمات اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مثالی اسوۂ حسنہ میں کسی قومی پرچم کے وجود یا کسی واقعے مثلاً ہجرت مدینہ، صلح حدیبیہ، جنگ بدر یا فتح مکہ جیسے عدیم المثال مواقع کی یاد میں کوئی جشن برپا ہوتے نظر نہیں آرہا۔ پھر اس جشن اور پرچم و ترانے کے احترام و تقدس کا تصور کہاں سے آیا۔ جس کا صور اس آہنگ سے پھونکا گیا۔ ایک لطیفے کے مصداق اور بعض لطائف حقائق کے عکاس ہوتے ہیں کہ ایک کم فہم و سادہ دل شخص کو جامع مسجد کے امام سے پوچھنا پڑا کہ جشن آزادی کی نماز کتنے بجے ہوگی۔ ظاہر ہے یہ تصور دوسری قوموں کے تتبع سے آیا۔ جب عالم عیسائیت میں مذاہب کے نام پر اللہ کے بندوں پر حکمرانوں کے خدائی اختیارات اور یہ اختیار عطا کرنے والے چرچ نے ظلم وجبرکی انتہا کردی اور انسان کی عقل تک پر پہرے لگا دیے اور چرچ نے Divine Rights of King بادشاہ کے ہاتھ میں دے کر کہہ دیا کہ تو مشق ناز کر خون دو عالم، میری گردن پر نہیں خدا کی گردن پر۔ تو مسلمانوں کی دانش سے مستفید ہونے والے اذہان نے اس نظام سے بغاوت کردی اور ریفارمیشن اور رینی ساں کی تحریکوں نے بقول علامہ اقبال کھلے بندوں کہہ دیا کہ ’’لا سلاطین، لا کلیسا لا الٰہ۔ یعنی اگر سلاطین خدا بنے بیٹھے ہیں اور یہ خدائی اختیار چرچ نے دیا ہے اور خدا وہی ہے جو چرچ کہتا ہے تو ظلم کی اس مثلث کو تین طلاق۔
عیسائیت کو اس کی مسخ شدہ شکل میں قبول نہ کرنے میں عالم عیسائیت اس بندھن (Binding Force) سے آزاد ہو کر بکھر کر رہ گیا۔ مذہب کے خلا کو وطن پرستی کے تصور نے پر کیا اور ایک عیسائی قوم مختلف علاقائی قومیتوں میں بٹ گئی اور خدا تعالیٰ کا تقدس عقل انسانی اور وطن پرستی کو مل گیا جس کے شعائر پرچم اور قومی ترانے تھے۔ اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ۔ اس مقامی قومیت نے وطن پرستی کی شکل میں دنیا کو باہمی تصادم اور طاقت کے بہیمانہ استعمال پر آمادہ کیا۔ ہٹلر نے قومی برتری کے زعم میں عالمی جنگ دوم کا جہنم بھڑکایا اور آج بھی اس علاقائی قومیت نے دور جاہلیت کے نعرے انصر اخاک ظالماًاو مظلوماً۔ تمہارا بھائی خواہ مظلوم ہو یا ظالم تمہیں تو بہرحال اپنی بقا کی خاطر اس کی مدد کرنی ہے۔ آج وہی متعصبانہ جذبہ My Country Right or Wrong کی شکل میں دنیا کے امن کو برباد کرنے کے درپے ہے۔ یہ ہے خدا پرستی کو خیر باد کہہ کر وطن پرستی کی روش جو ہم نے مغرب سے درآمد کی ہے اور جس کے شعائر پرچم اور ترانہ ہیں۔ تبھی تو ہم قرآن کی تلاوت بڑے آرام سے کرسیوں پر براجمان ہو کر سنتے اور قومی ترانے پرچم کشائی پر احتراماً اس سپردگی سے کھڑے رہتے ہیں جیسے خدا کے سامنے نماز میں بھی نہیں کھڑے ہوتے۔ علامہ اقبال جو ابتداً وطن پرستی کے مبلغ و پرچارک تھے انہیں جب وطن پرستی کے عفریت کا شعور حاصل ہوا تو فرمایا:
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور
تہذیب کے آذر نے تر شوائے صنم اور
ساقی نے بناکی روش لطف و کرم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ ملت کا کفن ہے
نیز: نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اس مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے
اور اقوام میں مخلوق خدا ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
اور ترانے میں تو مغربی قومیت نظریے کے ساتھ موسیقی بھی در آئی بلکہ پہلے موسیقی کی دھن بنائی گئی پھر اس دھن کی پابندی میں شعر کہے گئے اور شاعر نے قومی ترانے کے معیاری نہ ہونے کا عذر یہی پیش کیا کہ مجھے تو چھاگلہ صاحب کی دھن میں شعر کہنے تھے سو وہ ایسی ہی غریب تراکیب کے ہوسکتے تھے یعنی فارسی تراکیب کے ترجمان ماضی شان حال جان استقبال وہ تو بھلا ہولفظ ’’کا‘‘ کا جس نے پورے فارسی ترانے کو مشرف بہ اردو کردیا۔
میرے ذہن میں چوں کہ نعمان حیدر صاحب کے سوال کا واضح جواب موجود ہے اس لیے میں بڑی سے بڑی محفل میں بھی قومی ترانے کے احترام میں کھڑا نہیں ہوتا اور اس حوالے سے اپنے حق میں ایک دینی درس گاہ سے فتویٰ بھی اس مضمون کا لے چکا ہوں کہ جس چیز کے احترام کی شریعت نے سفارش نہیں کی ہے اس کا احترام جائز نہیں۔ ہمیں اسلام نے منصب قیادت پر فائز کیا تھا لیکن آج ہم جدید جاہلیت کے تابع ہو کر رہ گئے ہیں۔ ہمیں جس تشبہ بالغیر سے منع کیا گیا تھا کیا پرچم اور ترانے کو جو خدا بیزار قوموں کا شعار ہے تشبہ نہیں جس کے نتیجے میں اپنا دینی تشخص تج کر منھم کے زمرے میں نہیں آجاتے بمصداق من تشبہ بقوم فھو منھم۔ اور اب تو اس حدیث کے مصداق ہمارے روز و شب لباس پسند و ناپسند انفرادی اور اجتماعی عمل فھو منھم کے ذیل میں نہیں آجاتا۔ یہ ہے وہ وضاحت جو محترم کالم نگار نے طلب فرمائی تھی۔
آخری بات یہ کہ تشکر آزادی کے تقاضے عزم و احتساب ہیں جن کا دور دور پتا نہیں چلتا اور آزادی موہوم کی یاددھوم دھڑکے کی نذر ہو جاتی ہے، کراماً کاتبین کی گواہی کے بجائے وطن کی مٹی کو گواہ بنایا جاتا ہے اور جب یہ مٹی قبر کی زبان بن کر ہم آزادی کے متوالوں کے لچھن بیان کرے تو ہماری جان پر بن آئے گی۔