ا13159ریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھارتی دارالحکومت دہلی میں کھڑے ہوکر اعلان کیا ہے کہ امریکہ ’’دہشت گردی‘‘ کے معاملے میں بھارت کے ساتھ ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے سائے میں کھڑے ہوکر پاکستان سے ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کو ممبئی اور پٹھانکوٹ حملے کے ذمے داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے مزید اقدامات کرنے ہوں گے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ’’دہرا معیار‘‘ نہیں ہوسکتا، پاکستان جیشِ محمد، لشکرِ طیبہ اور ڈی کمپنی کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرے، اچھے اور برے دہشت گردوں میں فرق نہیں کیا جاسکتا۔ امریکی وزیر خارجہ کے دورۂ بھارت کے دوران میں امریکہ، بھارت اور افغانستان کے درمیان دفاعی اور اقتصادی تعاون کا معاہدہ بھی ہوا ہے۔ جان کیری نے دہلی میں کھڑے ہوکر پاکستان کو ’’ہدایت‘‘ دی ہے کہ وہ بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دیگر ممالک کے اتحاد کا حصہ بنے۔
امریکی وزیر خارجہ کی حمایت کے ساتھ بھارت کا پاکستان پر دہشت گردی کے لیے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام اس حقیقت کو عیاں کررہا ہے کہ عالمی سیاست اور اس خطے میں بھارت اور امریکہ کا جو اتحاد قائم ہوا ہے اس کا اصل دشمن پاکستان ہے۔ یہ بات بہت پہلے سے کہی جارہی ہے کہ پاکستان کے خلاف امریکہ، بھارت اور اسرائیل کا تثلیث کا اتحاد قائم ہوچکا ہے۔ نائن الیون کے بعد سے انسدادِ دہشت گردی کے نام پر عالمی جنگ امریکی قیادت میں جاری ہے اور بہ ظاہر پاکستان اس جنگ میں امریکہ کا ’’خطِ اوّل‘‘ کا اتحادی ہے۔ جس وقت جنرل (ر) پرویزمشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہوتے ہوئے پاکستان کے اقتدارِ اعلیٰ اور قومی سلامتی کی پالیسی سے یوٹرن لیتے ہوئے امریکی جنگ کا اتحادی بننے کا اعلان کیا تھا اور افغانستان کے مسلمانوں پر 40 ملکی فوجوں کے حملے میں مدد دینے کا اعلان کیا تھا تو اُس وقت ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ انھوں نے یہ دلیل بھی دی تھی کہ اگر ہم ایسا نہ کرتے تو بھارت سبقت لے جاتا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے اس طرح کشمیر کو بچالیا۔ حالانکہ اُس وقت بھی حقیقت یہی تھی کہ بھارت امریکہ کا اسٹرے ٹیجک پارٹنر تھا۔ پاکستان کی حیثیت ایک غلام سے زیادہ نہیں تھی۔ یہ بات بھارت کے دفاعی ماہرین کھلے الفاظ میں کہتے تھے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردی کی آج تک کوئی متفقہ تعریف متعین نہیں کی جاسکی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک اور اصطلاح وضع کی گئی ہے اور اس اصطلاح کا نام انتہا پسندی ہے۔ دو مبہم اور ناقابلِ تشریح اصطلاحوں کے پردے میں تمام شہریوں کے انسانی حقوق معطل کردیے گئے ہیں۔ جان کیری کا دورۂ بھارت جس تناظر میں ہوا ہے وہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک ایک بار پھر زندہ ہوگئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر قدیم ترین عالمی مسئلہ ہے جو اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے۔ سلامتی کونسل قرارداد منظور کرچکی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام اپنے حقِ خودارادیت کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کا مجرم ثابت ہوچکا ہے۔ اگر امریکہ اور عالمی طاقتیں شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے تصور کے ساتھ سنجیدہ وابستگی رکھتی ہیں تو یہ ان کا فرض تھا کہ وہ بھارت کو مجبور کرتیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے نہتے شہریوں کے اوپر ایسا اسلحہ استعمال نہ کرے جو انھیں معذور اور نابینا کرتا ہے۔ چھرّے والی گنوں کے استعمال سے سینکڑوں عورتیں اور بچے زخمی اور نابینا ہوچکے ہیں۔ خود بھارت میں آزاد اور بیدار ضمیر آواز بلند کررہا ہے۔ بھارتی حکومت کشمیر کے مسئلے پر کل جماعتی کانفرنس طلب کرنے پر مجبور ہوگئی، لیکن وہ اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہونے کی دعویدار حکومت اپنی فوجی طاقت کے ذریعے کشمیریوں کو غلام بنانے پر مجبور ہے۔ دنیا کے سامنے بھارت کی فوج کے انسانیت سوز مظالم اور جرائم آنے کے بعد امریکی شہ پر بھارتی وزیر خارجہ کا یہ مطالبہ کہ پاکستان اچھے اور برے دہشت گردوں میں فرق کرتا ہے، یا یہ کہ پاکستان نے دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں دی ہوئی ہیں اس بات کی دلیل ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کے نام پر جاری عالمی جنگ دنیا کو اپنا غلام بنائے رکھنے والے عالمی استعماری منصوبے کا حصہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو امریکہ اور بھارت کھل کر چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے خلاف سامنے نہ آتے۔ اسی مقصد کے لیے یعنی وسط ایشیا، جنوبی ایشیا، مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے جغرافیائی، تزویراتی، اقتصادی اور جنگی وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے امریکہ نے پہلے افغانستان پر قبضہ کیا، اس کے بعد عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بننے کے بعد پاکستان جو امن کا جزیرہ تھا اب دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے۔ اب ہماری سیاسی اور عسکری قیادت انکشاف کررہی ہے کہ کراچی، بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی پشت پر بھارت ہے جسے رسائی افغانستان کے راستے سے امریکہ نے دی ہے۔ ’’وارآن ٹیرر‘‘ کے تحت پاکستان میں سی آئی اے اور ایف بی آئی کے ساتھ ساتھ بلیک واٹر جیسی دہشت گرد تنظیموں کو رسائی دے دی گئی۔ انسدادِ دہشت گردی کی جنگ فروغِ دہشت گردی کی جنگ بن گئی۔ اس جنگ نے پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک میں حقیقی سیاسی عمل کو ختم کردیا اور ہر ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے آلہ کاروں نے تسلط حاصل کرلیا۔ اصل فیصلہ طاقت کی بنیاد پر کیا جارہا ہے جس طرح امریکہ اور بھارت مل کر پاکستان کو دہشت گردوں کا محافظ قرار دے کر دہشت گردی کے حقیقی ذمے داروں کو تحفظ فراہم کررہے ہیں۔ جان کیری اور سشما سوراج کی مشترکہ پریس کانفرنس سے ان کے دلوں کے اندر موجود پاکستان، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت امڈ رہی ہے، لیکن ہمارے ملک میں غلامی پر آمادہ ذہن وقت کے تقاضوں کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ امریکہ، بھارت اور اسرائیل نے دہشت گردی کی اپنی تعریف متعین کی ہوئی ہے اور اس کے ذریعے عراق کے بعد ’’عرب بہار‘‘ کے نام پر لیبیا، یمن اور شام جیسے مسلمان ملکوں کو تباہ کردیا ہے۔ پاکستان ان کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف امریکہ، بھارت اور اسرائیل کا اتحاد کھل کر سامنے آگیا ہے، اس کے مقابلے کے لیے قومی یکجہتی پہلی شرط ہے۔