کیا پاکستان خطے میں تنہا ہو رہا ہے؟

232

عارف بہار

عشروں تک پاکستان کا اتحادی رہنے والے امریکا کے وزیر خارجہ جان کیری اتنی ہی مدت تک سوویت کیمپ کا حصہ رہنے والے بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں مستقبل کی دفاعی اور جنگی شراکت داری کے عہد وپیماں کر رہے ہیں اس کے بعد یہ اتحاد خطے میں سہ فریقی یعنی امریکا، بھارت اور افغانستان کی شکل اختیار کرتا ہوا آگے بڑھے گا۔ کابل میں تین ملکوں کی ایک کانفرنس ہو گی جس کے بار ے میں جان کیری نے پاکستان کو بتایا ہے کہ امید ہے اس سے پاکستان تنہائی محسوس نہیں کرے گا۔ کیا واقعی پاکستان خطے میں تنہائی محسوس کررہا ہے؟ یہ آج کے پاکستان میں بنیادی سوال ہے۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حادثے کے بعد پاکستان کے بدلتے ہوئے دفاعی تصور کو اسٹرٹیجک ڈیپتھ کہا گیا۔ اس تصور کا ماٹو ’’پاکستان سے باہر پاکستان کا دفاع ‘‘ تھا۔ اس کے عسکری اہداف سے زیادہ سیاسی اہداف اہمیت کے حامل تھے۔ مقصد ومدعا یہ تھا کہ اب پاکستان اپنی سرحدوں کے اندر ایک اور سقوط کا انتظار کرنے کے بجائے اپنے جامے سے باہر دشمن سے کھیلے گا۔ اس تصور دفاع کا سیاسی پہلو یہ تھا کہ اب پاکستان اپنی تنہائی کے لمحات کو جھٹک کر اپنے ارد گرد دوستوں کی تلاش اور تراش خراش کرے گا۔ تب پاکستان نے علاقے میں جگرِ لخت لخت کی صورت بکھرے اور درماندہ حال دوستوں کو دوبارہ اکٹھا کرنے کی حکمت عملی اپنائی۔ گزشتہ دہائی میں یہ تصور کمزور پڑتا چلا گیا اور آج یہ دن ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی باتوں کے جواب میں بلوچستان، آزادکشمیر اور گلگت کاذکر چھیڑنے پر بیرونی دنیا میں پہلا تائیدی ردعمل بنگلا دیشی وزیر اطلاعات کی طرف سے آیا جس نے یہ کہا کہ بہت جلد کہ نریندر مودی کی طرف سے بلوچستان کی بات کرنے پر بنگلا دیش حکومت باضابطہ بیان جاری کرے گی۔ اس کے بعد فوری اور عملی ردعمل افغانستان کی طرف سے سامنے آیا۔ جب بلوچستان بھر میں نریندر مودی کے بیان اور بلوچ شدت پسند براہمداغ بگٹی کے تائیدی بیان کے خلاف احتجاج ہورہا تھا۔
افغانستان میں چمن بارڈر کے قریب ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ جس میں مظاہرین نے پاکستان کا پرچم جلایا اور دوستی گیٹ پر پتھراؤ کیا۔ جس کے بعد افغان حکام نے گیٹ کو بند کر دیا اور یوں دونوں ملکوں کے درمیان آمد ورفت اور تجارت معطل ہو گئی۔ پاکستان کی طرف سے قومی پرچم کی بے حرمتی پر افغان حکومت سے شدید احتجاج کیا گیا۔ بھارت پاکستان کو خطے میں مسلسل تنہا کرنے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ بھارت اور پاکستان کے بعد جنوبی ایشیائی ملکوں کی تنظیم سارک میں دو قابل ذکر ملک بنگلا دیش اور افغانستان مانے جاتے ہیں۔ دونوں مسلمان ملک ہیں مگر دونوں ملکوں میں بھارت کچھ اس طرح اپنے اثرات گہرے کر رہا ہے کہ دونوں بھارت کی دوستی سے بڑھ کر پاکستان دشمنی کا خول چڑھا لیں۔ دونوں پاکستان کے لیے مشکلات اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کا باعث بنیں۔ بھارت جب براہ راست پاکستان سے ٹکر لینے کی پوزیشن میں نہ ہو تو پلاسٹک کے ان طوطوں کی چابی گھما کر اپنے مطلب کی بات کہلوائی جائے۔ بھارت کو اس وقت دونوں ملکوں میں سازگار ماحول میسر ہے۔ بنگلا دیش میں ایک حکمت عملی کے تحت اور بھارت کو راستہ دینے کے لیے حسینہ واجد کو برسر اقتدار لایا گیا ہے۔ وہ انتخاب اور اقتدار کے کھیل کو قواعد کے اندر رکھ کر کھیلنے کے بجائے کلی فاول پلے کر رہی ہیں اس کا مقصد بھارت کو بنگلا دیش میں راہ دینا ہے۔
حسینہ واجد کا بھارت کے ساتھ نسلوں کا رشتہ ہے اور دونوں ایک دوسرے کے احسانات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ بنگلا دیش کو احسان کے اس بوجھ سے نکالنے کی کوشش کرنے والی حزب اختلاف بری طرح معتوب ہے۔ خالدہ ضیاء کی بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی ان قوتوں کی سرخیل تھی مگر وہ بری طرح معتوب ہے۔ خالدہ ضیاء کو حیلوں بہانوں سے مقدمات میں پھنسایا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے لیڈروں کے ساتھ ساتھ خالدہ ضیاء کے حامی کئی سیاسی راہنماؤں کو بھی پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔ اس طرح بنگلا دیش میں پاکستان سے تعلق اور دوستی کا دم بھرنے والوں کو جبر وستم کا شکار بنا دیا گیا ہے۔ ڈھاکا کے ایوانوں سے جاو بے جا نئی دہلی کی حمایت میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ جس کا ایک ثبوت نریندر مودی کے بلوچستان کے بارے میں بیان کی حمایت ہے۔ بنگلا دیش کو بھارت کی ایک کالونی بنانے کا وہ خواب تعبیر کے قریب ہے جس کو اندراگاندھی اور شیخ مجیب آنکھوں میں بسائے اس دنیا سے چلے گئے تھے کیوں کہ بنگلا دیش بنتے ہی مسلم قومیت کے نام پر ایسی لہریں چلنا شروع ہوگئی تھیں کہ جنہوں نے بنگلا دیش کو بھارت کے لیے لوہے کا چنا بنا ڈالا تھا۔ اس کوشش میں بنگلا بندھو شیخ مجیب کو بھی جان سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔
افغانستان میں بھارت پوری طرح ڈیرہ جمائے بیٹھا ہے اور اسے امریکا اور ناٹو کی چھتری بھی حاصل ہے۔ بھارت افغانستان میں اپنی موجودگی اور اثر رسوخ کو بھارت کے مفاد سے زیادہ پاکستان کی کلائی مروڑنے کے لیے استعمال کر رہاہے۔ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان سے سارے قرض چکانے کے راستے پر کاربند ہے۔ نریندر مودی کے پُتلوں کے نذر آتش ہونے کی تپش افغان حکومت کو بھارت سے زیادہ محسوس ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان پر حملوں، پرچم کی بے حرمتی جیسے واقعات کے پیچھے کون ہے؟ بھارت افغانستان کو اپنا دوست بنانے سے زیادہ پاکستان کا دشمن بنانے کی راہ اپنائے ہوئے ہے۔ افغانستان میں بھارت کا یہ کردار کابل اور اسلام آباد کے تعلقات پر لٹکتی ہوئی تلوار ہے۔ تعلقات میں کشیدگی کا یہ خمیازہ لاکھوں افغان مہاجرین کو بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ بھارت نے خطے میں پاکستان کو تنہا کرنے کا جو خطرناک کھیل شروع کر رکھا ہے یہ خوف ناک کشمکش اور بالادستی کے نہ ختم ہونے والے کھیل کا آغاز بن رہا ہے۔ چمن میں مودی کی محبت سے سرشار افغانوں کی تلملاہٹ ہو یا ڈھاکا میں وزیر اطلاعات کی تائیدی آواز سب پاکستان کو تنہائی کی طرف دھکیلنے کی بھارتی حکمت عملی کے غماز ہیں۔
پاکستان نے ماضی میں بھی اسی کوشش کو ناکام بنانے کے اپنی حدود سے باہر نکل کر’’ اسٹرٹیجک ڈیپتھ‘‘ (تزویراتی گہرائی) کا تصور اپنایا تھا۔ جس کا ایک مقصد جہاں پاکستان سے باہر پاکستان کا دفاع تھا وہیں اس کا مقصد کابل، سری نگر، دہلی، ڈھاکا سمیت گردوپیش میں اپنے دوستوں کو سیاسی طاقت فراہم کرنا تھا، دم توڑتی سانسوں کو آکسیجن ٹینٹ مہیا کرنا تھا۔ اس پالیسی نے بلاشبہ خطے میں پاکستان کے دوستوں کی تعداد بڑھا دی تھی، افغانستان جہاں کوئی پاکستان کا نام لیوا نہ تھا وہاں پاکستان سے دوستی اور تعلق کا علانیہ دم بھرنے والے کئی افغان سامنے آئے تھے۔بنگلا دیش میں خالدہ ضیاء جیسی متعدل شخصیات اقتدار میں آنے لگی تھیں۔ کشمیر میں مسلم متحدہ محاذ جیسے آزادی پسند اتحادنے سری نگر اسمبلی میں داخل ہونے کی منظم کوشش کی تھی۔پاکستان نے عالمی دباؤ کے باعث اس پالیسی سے یوٹرن لے کر’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا بے معنی راستہ اپنایا جو ’’سب سے پہلے میری جان ‘‘ پر منتج ہوا اور پاکستان دوستوں کو گنوا کر ’’خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘‘ کی تصویر بن گیا۔