دہشت گردوں کا رد عمل

162

جب بھی پاکستان کے حکمران اور عسکری حلقے یہ دعوے کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے، وہ اس دعوے کے رد میں اپنی ٹوٹی کمر سے کوئی وار دات کر بیٹھتے ہیں اور تمام دعوے دھرے رہ جاتے ہیں۔ گزشتہ جمعرات ہی کو گوادر میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف فرما رہے تھے کہ ’’دہشت گردوں کی صرف دم رہ گئی، وہ بھی جلد کاٹ دیں گے، بڑا معرکہ سر کرلیا۔ بلوچستان کو عذاب میں مبتلا کرنے والی طاقتیں بے نقاب ہوگئیں، وغیرہ وغیرہ۔ اور سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے گلگت میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’مودی ہو ’را‘ ہو یا کوئی اور دشمن سب کی چالیں سمجھ چکے، کرپشن اور دہشت گردی کا گٹھ جوڑ توڑ دیں گے۔‘‘ اور پھر اگلے ہی دن مردان کی کچہری پر خودکش حملہ ہوگیا جس میں حملہ آور سمیت 15 افراد ہلاک ہوگئے۔ اس موقع پر پولیس کے ایک جوان جنید نے اپنی جان دے کر بہادری کی مثال قائم کردی۔ وہ حملہ آور کی راہ میں مزاحم ہوگیا جس پر خودکش حملہ آور نے خود کو اڑا لیا۔ اگر اس کو نہ روکا جاتا تو وہ اندر داخل ہو کر زیادہ نقصان پہنچا سکتا تھا۔ یہ حملہ بھی وکیلوں پر تھا۔ کوئٹہ میں منصوبہ بندی کے تحت 70 وکلا کو شہید کردیا گیا تھا اور مردان کے ایک وکیل کہہ رہے تھے کہ ابھی تو ہم کوئٹہ میں شہید ہونے والے وکلاء کا سوگ منا رہے تھے کہ ایک اور حادثہ ہوگیا۔ اسی دن پشاور میں ایک بڑی تباہی کا منصوبہ نا کام بنا دیا گیا۔ تاہم یہ حقیقت بارہا سامنے آچکی ہے کہ جب بھی حکمرانوں نے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کا دعوی کیا، انہوں نے اپنی موجودگی اور طاقت کا ثبوت دے دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خود کش حملہ آوروں کو روکنا آسان نہیں کیوں کہ جو اپنی جان دینے پر تلا ہوا ہو وہ مرتے مرتے دوسروں کی جان لے لیتا ہے۔ ایسے عناصر کا تدارک بہترین انٹیلی جنس اور خفیہ اداروں کی کوشش سے ہوسکتا ہے۔ ان کا پہلے سے سراغ لگا کر انہیں کارروائی سے روکا جائے۔ ایسی کئی کوششیں کامیابی سے ہم کنار بھی ہوئی ہیں جن میں کارروائی سے پہلے ہی حملہ آور دھر لیے گئے اور ان کے قبضے سے خود کش جیکٹیں بھی برآمد کرلی گئیں۔ وزیراعظم کے بقول ان کی دم رہ گئی ہے لیکن یہ دم بھی خطرناک ہے۔ اسے جتنی جلد ہوسکے منقطع کردینا چاہیے۔ دوسری طرف جنرل راحیل نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور اس کی خفیہ تنظیم را کو بھی کھل کر انتباہ کردیا ہے۔ جنرل راحیل کے اس بیان سے واضح ہے کہ پاکستان کا اصل دشمن کون ہے اور تخریب کاری کون کرا رہا ہے۔ جنرل راحیل نے کہا کہ سب سن لیں، ملکی سلامتی کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے۔ دنیا کچھ بھی سمجھے، ہم بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ بقینا ہمارے سول حکمرانوں اور عسکری قیادت کا یہی عزم ہونا چاہیے۔ دہشت گردوں سے جنگ پاکستان کے بقا کی جنگ ہے جس میں کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ بھی اچھی بات ہے کہ اب اس جنگ کو امریکا کی جنگ نہیں سمجھا جا رہا ورنہ ایک عرصے تک یہی باور کرایا جاتا رہا کہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ امریکا کی ہے جس میں پاکستان صف اول کا اتحادی ہے۔ امریکا نے خود ہی اپنے ’’صف اول‘‘ کے اتحادی سے آنکھیں پھیرلی ہیں اور اب بھارت اس کا اتحادی ہے۔ جہاں تک کرپشن اور دہشت گردی میں گٹھ جوڑ کا تعلق ہے تو ہمارے حکمران شاید اس سے متفق نہیں ہیں اور کرپشن کرنے والوں کو دہشت گرد تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔