(زخرف: 12 تا 15)

210

وہی جس نے یہ تمام جوڑے پیدا کیے، اور جس نے تمہارے لیے کشتیوں اور جانوروں کو سواری بنایا تاکہ تم اُن کی پشت پر چڑھو اور جب اُن پر بیٹھو تو اپنے ربّ کا احسان یاد کرو اور کہو کہ ’’پاک ہے وہ جس نے ہمارے لیے اِن چیزوں کو مسخر کر دیا ورنہ ہم انہیں قابو میں لانے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ اور ایک روز ہمیں اپنے ربّ کی طرف پلٹنا ہے‘‘۔ (یہ سب کچھ جانتے اور مانتے ہوئے بھی) اِن لوگوں نے اُس کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جز بنا ڈالا، حقیقت یہ ہے کہ انسان کھلا احسان فراموش ہے۔
(زخرف: 12 تا 15)

رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: اللہ جل شانہ کی ایک سو بیس (120) رحمتیں روزانہ اس گھر (خانہ کعبہ) پر نازل ہوتی ہیں جن میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں پر، چالیس وہاں نماز پڑھنے والوں پر اور بیس خانہ کعبہ کو دیکھنے والوں پر۔ (طبرانی) رسول اللہ ؐ نے فرمایا: جس نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور دو رکعت ادا کیں گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا۔ (ابن ماجہ)

’ اقبالؒ نے مسلمانوں کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ اسلام کوئی پرانا اور ازکارِ رفتہ نظام نہیں ہے جو اس زمانے میں کام نہ کرسکتا ہو۔ انھوں نے اپنے شعر سے بھی اور اپنی نثر سے بھی یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشین کی کہ اسلام ازلی و ابدی اصولوں کا حامل ہے۔ اسلام کسی وقت بھی پرانا نہیں ہوسکتا۔ اس کے اصول ہر زمانے میں یکساں قابلِ عمل ہیں۔‘
(سیّد ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ)