الطاف حسین، برطانیہ اور حکومت پاکستان

146

الطاف حسین، برطانیہ اور حکومت پاکستان
الطاف حسین 1992ء کے کراچی آپریشن سے پہلے ہی فرار ہو کر لندن پہنچ گئے تھے۔ جہاں برطانیہ کی طاقتور خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا انہیں وی آئی پی کا درجہ دیا گیا اور ان کی ہر طرح سے ناز برداری کی گئی۔ 2002ء میں انہیں برطانوی شہریت بھی دیدی گئی۔ لیکن انہیں برطانیہ کے ہر قانون سے مستثنی رکھا گیا۔ ان سے کبھی نہ آمدنی کے ذرائع معلوم کیے گئے نہ ان پر ٹیکس قوانین کو لاگو کیا گیا۔ ایک زمانہ تھا جب پاکستان سے یومیہ بنیادوں پر کروڑوں کا بھتا منی لانڈرنگ کے ذریعے لندن پہنچ رہا تھا۔ الطاف حسین اس رقم سے اللے تللے کر رہے تھے۔ لندن میں ایم کیو ایم سیکریٹریٹ کے بھاری اخراجات کے علاوہ جائداد خریدی جارہی تھی اور عیش و عشرت کے دیگر سامان فراہم کیے جارہے تھے لیکن لندن پولیس اور محکمۂ انکم ٹیکس نے ان تمام سر گرمیوں سے آنکھیں بند رکھی تھیں۔ ایک طویل مدت بعد لندن پولیس نے ان کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس قائم کیا اور ان کے گھر اور دفتر پر چھاپا مار کر پانچ لاکھ پونڈز کی خطیر رقم بھی برآمد کرلی جس کے بارے میں الطاف حسین کچھ وضاحت نہ کرسکے کہ یہ رقم کہاں سے اور کس طرح آئی۔ ان کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس نہایت مضبوط تھا اور برطانیہ میں اس جرم کی سزا بھی بہت کڑی ہے لیکن لندن پولیس ان کا بال بھی بیکا نہ کرسکی اس نے الطاف حسین کو دو چار بار تھانے میں ضرور بلایا لیکن وہ پولیس کے ہر سوال کے جواب میں ’’نوکمنٹس‘‘ کہتے رہے آخر پولیس نے اس کیس سے ہاتھ اٹھاتے ہوئے انہیں باعزت طور پر بری کردیا۔ یہ اس لیے ممکن ہوا کہ الطاف حسین کو ’’ایم آئی سکس‘‘ کی مضبوط پشت پناہی حاصل تھی اور انہیں رسوا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ لندن میں ایم کیو ایم کے منحرف رہنما عمران فاروق کو قتل کردیا گیا اس قتل کے تمام کھرے الطاف حسین کے گھر کی طرف جاتے تھے لیکن پولیس ان پر دباؤ نہ ڈال سکی۔ دباؤ ڈالنا اور اقرار جرم کروانا تو الگ رہا، پولیس کو ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی بھی اجازت نہ تھی عمران فاروق قتل کیس بلاشبہ برطانیہ میں چل رہا ہے لیکن لندن پولیس اندھے بھینسے کا کھیل کھیل رہی ہے اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر ٹامک ٹوئیاں مارنے میں مصروف ہے۔ اس قتل کا اصل مجرم اور منصوبہ ساز اس کے سامنے موجود ہے لیکن اسے پکڑنا تو کجا وہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتی۔ پاکستان کی وزارت داخلہ نے ایک نیا ڈراما کیا ہے۔ اسلام آباد ائر پورٹ پر عمران فاروق کے قاتل پکڑے جانے کے بعد اس نے قتل کا مقدمہ پاکستان میں درج کرلیا ہے اور قاتلوں سے تفتیش کر رہی ہے۔ اس تفتیش کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ اس سے الطاف حسین پر کوئی آنچ نہیں آئے گی جب کہ لندن پولیس کی بھی یہی کوشش ہے کہ الطاف حسین پر کوئی زد نہ پڑنے پائے۔ قتل لندن میں ہوا ہے جائے وار دات لندن میں واقع ہے اس لیے مقدمہ بھی لندن میں ہی درج ہونا چاہیے اور لندن پولیس کو ہی اس کی تفتیش کرنی چاہیے جو وہ کر رہی ہے۔ پاکستان نے اپنی سر زمین پر مقدمہ درج کرکے اور اس کیس کو اپنے ہاتھ میں لے کر معاملے کو مزید مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے جس کا فائدہ الطاف حسین ہی کو پہنچے گا۔
بہرکیف الطاف حسین لندن میں بالکل محفوظ ہیں، ایم آئی سکس ان کے ناز اٹھا رہی ہے اور کوئی ان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ وہ لندن میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف یاوہ گوئی کرتے رہتے ہیں، لوگوں کو بغاوت پر اکساتے ہیں۔ کراچی میں آئے دن ہڑتالیں اور فساد برپا کراتے رہے ہیں۔ اب جبکہ پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے الطاف حسین نے ’’پاکستان مردہ باد‘‘ کا نعرہ لگا کر اور قومی اداروں کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز باتیں کرکے تمام حدیں پار کرلی ہیں تو حکومت کی سوئی ہوئی غیرت بھی جاگی ہے اور اس نے الطاف حسین کے خلاف قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن قدم کیا اٹھایا ہے؟ ذرا ملا حظہ کیجیے وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ برطانیہ سے الطاف حسین کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا البتہ برطانوی حکومت کو الطاف حسین کے خلاف تمام ثبوت فراہم کرکے اس سے کہا جائے گا کہ وہ برطانوی قانون کے مطابق الطاف حسین کے خلاف کارروائی کرے۔ یعنی مسلم لیگ نے کی حکومت الطاف حسین سے اتنی خوفزدہ ہے کہ وہ برطانیہ سے اس کی حوالگی کا مطالبہ کرنے سے بھی کترا رہی ہے
حالاں کہ یہ شخص پاکستان کا مجرم ہے وہ گزشتہ پچیس سال سے لندن میں بیٹھا پاکستان دشمن منصوبوں کو عملی جامہ پہنا رہا ہے اس نے کراچی کو مقتل بنا رکھا ہے۔ جہاں بے گناہ لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ وہ پاکستان کو توڑنے کی سازشوں میں شریک ہے اور اس مقصد کے لیے اس نے بھارت، امریکا، اسرائیل اور برطانیہ سمیت تمام پاکستان دشمن طاقتوں کو اپنی خدمات پیش کر رکھی ہیں۔ کیا اتنے خطرناک مجرم کو پاکستان لانا اور اس پر آئین کی دفعہ 6 کے تحت مقدمہ چلا کر اسے عبرتناک سزا دینا پاکستان کا حق نہیں بنتا؟ الطاف حسین پاکستان کا سابق شہری ہے۔ پاکستان اپنے دوست ملک برطانیہ سے اس کی حوالگی کا مطالبہ کرنے میں بالکل حق بجانب ہے بالکل اسی طرح جیسے ترکی نے امریکا سے اپنے ایک شہری فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ ترک حکومت کا کہنا ہے کہ نا کام فوجی بغاوت میں فتح اللہ گولن کا بنیادی کردار ہے۔ فتح اللہ گولن پر جو الزامات لگائے جاتے ہیں ان سے کہیں زیادہ سنگین الزامات الطاف حسین پر عائد ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے الطاف کو پاکستان نہ لانے کا فیصلہ کرکے خود کو بری طرح ایکسپوز کرلیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایم کیو ایم کی پارلیمانی قوت سے خائف ہے اور اس سے بگاڑنا نہیں چاہتی حالاں کہ ان لوگوں نے پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگا کر اور اپنے قائد را کے مسلمہ ایجنٹ سے عہد وفا داری نبھا کر اپنا مینڈیٹ کھو دیا ہے۔ یہ مجرموں کا ٹولہ ہے اس سے آہنی ہاتھ کے ساتھ نمٹنا چاہیے۔ اگر موجودہ حکومت الطاف حسین پر مقدمہ بھی نہیں چلانا چاہتی اور ایم کیو ایم پر پابندی لگانے کے حق میں بھی نہیں ہے تو اس سے پوچھنا چاہیے کہ آخر وہ کہاں کھڑی ہے؟