نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) بھارت میں لاکھوں سرکاری ملازمین اور کارکنان حکومتی اصلاحات کی پالیسیوں کے خلاف ایک روزہ ہڑتال کی جس کے باعث نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ ان ہڑتالی کارکنان کا اہم مطالبہ تنخواہ میں اضافہ ہے۔ خبررساں اداروں کے مطابق بھارت میں جمعے کے روز ہزاروں کی تعداد میں بینک، سرکاری دفاتر اور فیکٹریاں بند رہیں، تاہم پبلک ٹرانسپورٹ، بجلی اور پانی جیسی سہولیات فراہم کرنے والے محکمے بھارت کے بڑے شہروں اور قصبوں میں کام کرتے رہیں گے۔ اس ہڑتال کی کال’ ٹین ٹریڈ یونین ‘ نے دی تھی۔ بھارت کی مرکزی ٹریڈ یونینز میں سے ایک ’ دی سینٹر آف انڈین ٹریڈ یونین ‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ جمعے کے روز ہونے والی اس ہڑتال میں 15کروڑ سے 18کروڑ تک کارکنان نے حصہ لیا ہے جن کا تعلق بینکنگ، کان کنی اور ٹیلی کام کے شعبوں سے ہے۔ سی آئی ٹی یو کے جنرل سیکرٹری (باقی صفحہ 9 نمبر 5)
تپن سین کا کہنا تھا کہ یہ یونینز سرمایہ کاری اور مزدوروں کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ کم سے کم اجرت میں اضافہ کیا جائے۔ تپن سین نے مزید کہا کہہم لیبر قوانین میں تبدیلیوں اور ان حالیہ حکومتی فیصلوں کی مخالفت کرتے ہیں جن کے تحت انشورنس اور دفاع جیسے شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے قوانین کو نرم کیا گیا ہے۔ تپن سین کا کہنا تھا کہ ہڑتال کی کال کامیاب رہی ہے۔ پولیس نے کئی مقامات پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے تشدد بھی کیا، لیکن کارکنان احتجاجی مظاہرے میں بڑے پیمانے پر شامل ہوتے رہے۔ اس دوران پولیس نے سیکڑوں افراد کو حراست میں بھی لے لیا۔ بھارت میں ٹریڈ یونینز ان حکومتی منصوبوں کی بھی مخالف ہیں جن کے تحت ’لاس میکنگ ‘سرکاری کمپنیاں بھی بند کر دی جائیں گی۔ ان کمپنیوں میں بڑی تعداد میں کارکنان کام کرتے ہیں۔ منگل کے روز ٹریڈ یونینز نے ہڑتال کی کال واپس لینے کی حکومتی اپیل کو مسترد کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ برسر اقتدار سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے منسلک بڑی یونین ’ بھارت مزدور سنگھ‘ نے جمعے کے روز ہڑتال میں حصہ نہیں لیا۔
بھارت/ ہڑتال