IMF کو خٰر باد کہنے کے باوجد قرض اتارنے کیلئے پھر قرضہ لینا ہوگا،میاں ذاہد حسین

138

کراچی(اسٹاف رپورٹر)پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چےئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ زرمبادلہ کمانے کے تین اہم ذرائع برآمدات، ترسیلات اور غیر ملکی سرمایہ کاری تنزل کا شکار ہیں جبکہ درآمدات جو زرمبادلہ کا ضیاع بڑھانے کا سبب ہیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو ملکی مسائل میں اضافہ ہو گا اوراسی سال آئی ایم ایف کو خیر باد کہنے کے بعد ایک بار پھر اسی ادارے سے قرض لینا واحد آپشن ہوگا۔ میاں زاہد حسین نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ برآمدات گزشتہ تین سال سے گر رہی ہیں جبکہ برآمدکنندگان ،آئی ایم ایف اور دیگر اداروں نے متعدد بار حکومت کواپنی مشکلات سے آگاہ کیا ہے مگر ایکسپورٹ سسٹم میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کی گئی جس سے مسائل بڑھے ہیں۔ حکومت نے برآمدی شعبے کو بعض مراعات دی ہیں جوموجودہ عالمی حالات اور بڑھتی ہوئی مسابقت کے ماحول میں ناکافی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ برآمدات کے علاوہ ترسیلات بھی مسلسل گر رہی ہیں ۔ نوے فیصد ترسیلات سعودی عرب، برطانیہ، امریکا، عرب امارات، اور جی سی سی ممالک سے آتی ہیں اور ان تمام ممالک سے آنے والے زرمبادلہ میں تاریخی کمی ہوئی ہے۔ صرف سعودی عرب میں پاکستانیوں کی بڑے پیمانے پر بے روزگاری سے ترسیلات زر میں دو ارب ڈالر کی کمی متوقع ہے جو پاکستان کے لیے ناقابل برداشت ہو گا۔ اگر سعودی عرب میں بے روزگار ہونے والے پاکستانیوں کی حالت زار پر توجہ نہیں دی گئی تو اس کے نتائج پاکستان کے مفادات کے خلاف ہوں گے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ غیر ملکی سرمایہ کاری بھی مسلسل گر رہی ہے۔ جولائی میں 63 ملین ڈالر پاکستان بھجوائے گئے مگر جس میں سے 54 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری اسٹاک ایکسچینج میں ہوئی جبکہ باقی نو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری دیگر شعبوں میں ہوئی یعنی اہم شعبوں کی سرمایہ کاری میں 48 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ صرف زرمبادلہ کے ذخائر کا استحکام ترقی کا ضامن نہیں بلکہ انھیں تخفیف سے محفوظ رکھنا بھی ضروری ہے جس کے لیے برآمدات، ترسیلات اور سرمایہ کاری کو توجہ دینے اور بڑھتی درآمدات کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ زرعی پیکج، آٹو پالیسی، بینک ٹرانزیکشن پر ٹیکس، نان فائیلرز کے خلاف اقدامات، ٹیکس ایمنسٹی اسکیم ،تاجروں اور پراپرٹی مارکیٹ کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی ہے جس سے حکومتی وسائل پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔