بڑا آدمی نہ تو قد سے ہوتا ہے نہ دولت سے۔ انسان وہ جو وقت کی قدر کرے۔ سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے ابھی ایک ماہ ہی گزارا ہے کہ ان کے حکمرانی کے انداز سے سندھ میں حکومت کا وزن محسوس ہونے لگا ہے۔ سب سے پہلے جو قدم انہوں نے اٹھایا وہ وقت پر کام شروع کرنے کا ہے۔ بلاشبہ وقت کی قدر ہی مسائل کے حل کا آغاز بلکہ اچھا آغاز ہے۔ قائد اعظم کے بارے میں مشہور تھا کہ آپ کو دیکھ کر لوگ گھڑیاں ملایا کرتے تھے۔ وقت کی ناقدری نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی تقریب افتتاح کے وقت جب لیاقت علی خان تاخیر سے پہنچے تو تقریب میں موجود تمام کرسیاں اٹھالی گئی تھیں جو اس بات کا اعلان تھا پاکستان میں وقت کی ناقدری نہیں کی جائے گی۔ آج ہمارے ہاں بیش تر تقاریب میں وقت کا خیال کم ہی رکھا جاتا ہے، خصوصاً شادی بیاہ کی تقاریب میں عوام اس بات کا کم ہی خیال کرتے ہیں کہ وقت پر پہنچ جائیں۔ اس تاخیر کے نتیجے میں وقت پر پہنچنے والے تمام ہی مہمان کوفت کا شکار ہوتے اور اس کی وجہ سے جو جو لوگ کسی دوسری جگہ وقت پر پہنچنا چاہتے ہیں نہیں پہنچ پاتے۔ ایک کے بعد دوسری تقریب متاثر ہوتی ہے۔ صرف سرکاری ہی نہیں نجی دفاتر میں بھی بیش تر جگہ وقت پر نہ پہنچنے کی عادت بہت سے مسائل پیدا کردیتی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کا یہ اقدام بڑا بر وقت ہے جس کے اثرات ان شاء اللہ اچھے ہی برآمد ہوں گے۔ جب افسر وقت پر آئیں گے تو ماتحتوں میں وقت پر دفتر پہنچنے کی عادت کے نتیجے میں کارکردگی بہتر ہوگی۔ تاخیر سے دفتر پہنچنے کے نتیجے میں کرپشن بھی پھیلتا ہے۔ جھوٹ بولنے کی عادت بھی ہوتی ہے۔ رشوت دے کر حاضری لگانے کی غلط روش پھیلتی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے اس عمل سے سندھ کے افسران میں اوپر کے درجے میں جب نظم و ضبط پیدا ہوگا تو یقیناًنچلا اسٹاف بھی اس کی تقلید کرے گا۔ یہ ضروری ہے کہ اعلیٰ افسران جن میں وزیر اعلیٰ بھی شامل ہیں وقت پر دفتر پہنچنے کی ہدایت پر عمل کریں گے تو نچلے عملے کے لیے سستی اور کاہلی اور تاخیر سے دفتر پہنچنے کا کوئی جواز نہ ہوگا۔ سچ یہ ہے کہ اعلیٰ افسران جب درست راستہ اختیار کرکے پابندی وقت کے ساتھ کام کا آغاز کردیتے ہیں تو بقیہ لوگ بھی اس راستے پر خوشی محسوس کرتے ہیں اور عوام کے لیے اس راستے پر چلنے میں آسانی کی وجہ سے رشوت، حرام خوری کا نظام دم توڑنے لگتا ہے اور یوں معاشرے میں خوشی، سکون اور چین کا دور دورہ ہوتا ہے۔ ظلم و ناانصافی کے دور کا خاتمہ ہوتا ہے، حق دار کو حق ملتا ہے تو چھوٹے بڑے سب کو انصاف ملتا ہے۔ خود اعلیٰ افسران اور ان کے ماتحت عملے کو جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا افسر دفتر میں موجود ہے اور ہر سطح کا اعلیٰ افسر بھی صرف ایک فون پر خبر لے سکتا ہے یا پہنچ سکتا ہے تو آہستہ آہستہ یہ روایات تبدیل ہوتی ہے۔ اور عوام بھی اپنے تمام کاموں میں آسانی پا کر سکھ و چین کا سانس لیتے ہیں۔ عدل و انصاف اوپر سے لیکر نیچے تک نافذ ہونے سے چھوٹے بڑے سب کو سہولتیں دستیاب ہوں گی تو صرف ایک وقت کی قدر سے تمام کاموں میں یقیناًبہتری آئے گی۔
انصاف میں تاخیر عدم انصاف ہی کے برابر ہے۔ وقت پر انصاف ہی وقت کی قدر ہے۔ آج پوری دنیا میں وقت کی قدر ہی چین و سکون کا باعث ہے جہاں وقت کی قدر نہیں وہاں بے چینیاں ہیں، تصادم ہے، ٹکراؤ ہے، تمام اداروں میں حق و انصاف کا بر وقت چلن اور ظلم و ناانصافی نہ ہو اور احتساب ہو رہا ہو۔ عدالتیں انصاف کر رہی ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرے میں بے چینی ختم نہ ہو۔
حکمرانوں کا اصل کام ہی یہ ہے کہ وہ اپنے عوام کی بروقت ضرورتیں پوری کریں۔ اور جو لوگ ظلم و ناانصافی سے بگاڑ پیدا کر رہے وہ خواہ کسی عہدے کے ہوں ان کا احتساب ہو، بگاڑ پیدا کرنے والوں کی بروقت گرفت ہی معاشرے کو پر سکون رکھتی ہے۔ ورنہ کرپشن کے مستقل راستے کھلے رہتے ہیں اور باصلاحیت لوگ غلط راستہ اختیار کرکے غلط طریقہ سے ماحول کو خراب کرتے ہیں۔ وقت پر مسائل کا حل بنیادی ضرورت ہے اور ایک اچھی حکومت کا یہ سب سے بڑا کارنامہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے عوام کو بنیادی ضرورتوں کے حصول میں طلب سے پہلے ضروری اشیاء اور خدمات میں سہولتیں فراہم کرے۔ اچھی حکمرانی کے لیے حکمرانوں کو اپنے ما تحتوں پر نظر رکھنی پڑتی ہے اور جہاں کوئی غلط کام ہو رہا ہو اس پر بروقت فیصلہ کرکے عوام کی بے چینی کا خاتمہ ہی حکمرانوں کا بنیادی کام ہے۔ اس سلسلے میں اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ وفاق کو بھی اپنا حق ادا کرنا چاہیے یعنی صوبوں کو بھر پور وسائل فراہم کیے جائیں اور ان وسائل کے خرچ پر بھی نظر رکھی جائے اور یہ کام اچھی انتظامیہ ہی کر سکتی جو ایک اچھے ذمے دار وزیر اعلیٰ کا کام ہے اور جس کا آغاز وزیر اعلیٰ کر چکے ہیں یعنی عوام تک اعلیٰ اور نچلے عملہ سے بر وقت کام آغاز۔