نیب کیسز میں رقوم کی رضار کارانہ واپسی آئین سے متصادم ہے،عدالت عظمی

124

کراچی(اسٹاف رپورٹر)عدالت عظمیٰ نے کرپشن کیسز میں نیب ، محکمہ اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے کی حدود کا معاملہ لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے چیف جسٹس کو بھیج دیا۔معاملہ بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ہے ۔عدالت عظمیٰ کا لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیے کہ نیب کیسز میں رضاکارانہ رقوم کی واپسی آئین کے بنیادی نظریے سے متصادم ہے۔نیب نے رضاکارانہ رقوم کی واپسی سے نہ صرف قوم کو نقصان پہنچایا بلکہ کرپشن میں اضافہ بھی کیا۔عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری میں جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے نیب کے اختیارات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔دوران سماعت جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیے کہ رضاکارانہ رقوم کی واپسی سے کرپشن ختم نہیں بلکہ کرپشن کو بڑھاوا ملتا ہے۔، جسٹس امیرہا نی مسلم نے کہا کہ ایک کلرک کروڑوں روپے کی کرپشن کے بعد آدھی رقم قسطوں میں ادا کر کے پوزیشن پر بیٹھ جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ نیب کو رضاکارانہ رقوم دینے والے کے خلاف کوئی محکمہ جاتی کارروائی نہ ہونا رشوت میں اضافے کا سبب ہے۔عدالت عظمیٰ نے کہا کہ نیب توانائیاں چھوٹے چھوٹے کیسزمیں صرف کر رہا ہے جب کہ ڈی جی نیب، چیئرمین نیب کی دی گئی پالیسی سے بھی انحراف اور تجاوز کر رہے ہیں۔عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ نیب کیسز میں رضاکارانہ رقوم کی واپسی آئین کے بنیادی نظریے سے متصادم ہے، عدالت عظمیٰ نے کہا کہ کروڑوں روپے رضاکارانہ واپس کرنے والا شخص دوبارہ اپنی سرکاری پوزیشن پر بیٹھا رہتا ہے۔رضاکارانہ رقوم واپس کرنے والے کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی نہیں کی جاتی،عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ لارجر بینچ طے کرے کہ نیب ، اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے کی کرپشن کیسز میں اختیارات کی حدود کیا ہیں ؟۔لارجر بینچ ایسے پبلک سرونٹ کے کیسز کا جائزہ لے جو رضاکارانہ رقم واپس کر کے سرکاری پوزیشن پر موجود ہیں ؟۔ لارجر بینچ یہ بھی دیکھے کہ احتساب عدالت میں کم مالیت کے کرپشن کیسز کیا اینٹی کرپشن کورٹس میں منتقل ہوسکتے ہیں ؟۔لارجر بینچ ایسے کیسز کا بھی جائزہ لے جو ایک کروڑ سے کم مالیت کے ہوں اور نیب انکوائری کر رہاہو؟۔عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل ،چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرل ،چیئرمین نیب ،ڈی جی نیب اور پراسیکیوٹر جنرل نیب کو نوٹس جاری کردیے۔