تصویر حرام،مجسمے حرام، کیوں؟ان تصویروں، مجسموں، عالیشان عمارتوں سے انسانوں کو کیا نقصان پہنچتا ہے۔
دنیا کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ سب چیزیں ظالموں کے ظلم، تکبر، غرور کی نشانیاں ہیں، جہاں ظالم نہیں ہوتاوہاں اس کی تصویر ،مجسمہ عالیشان عمارتیں انسانوں کو خوف میں رکھتی ہیں۔ ان کا یہ رعب، دبدبہ، خوف انسانوں کو سچ بولنے سے روکتا ہے۔
دنیا کے ظالموں نے اپنی علامات بنائیں۔ لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب ظلم کے خاتمے کا آغاز ہوتا ہے تو ان علامتوں کو مٹادیا جاتا ہے۔ دنیا سے ظلم ختم کرنے والے کی پیدائش 571ء میں ہوئی۔ ہوائیں ایسی چلیں کہ آتشکدۂ ایران جو ظلم کی علامت تھا بجھ گیا۔ ظالموں کی پہچان اونچے محل، اونچے کنگورے، کسریٰ کے محل کے کنگورے زمین کے ہلنے سے گر پڑے۔ وہ حیران تھا کہ عجب طرح کا زلزلہ ہے۔ غریبوں کی جھونپڑی نہیں گری اور امیر کے محل کے ستون ہل گئے۔ ظلم کی، شان کی، تکبر کی علامت محل کے اوپر کا حصہ گرگیا۔ یہ فارمولا بین الاقوامی اصول بنالیاگیا۔فتح مکہ کے بعد جب بتوں کو گرانے کی باری آئی تو عوام کی اکثریت سمجھ رہی تھی کہ اب کچھ ہوگا۔ وہ سب مٹ گئے اور کچھ بھی نہ ہوا۔
جب تک یہ علامات ہوتی ہیں انسانوں میں خوف رہتا ہے۔ مصطفی کمال پاشاہو،لینن ہو۔یا دوسرے بڑے ظالم حکمران، لیڈرز وہ چوراہوں پر اپنی تصاویر، مجسمے لگواکر عوام الناس کے دل میں خوف پیدا کرتے رہتے ہیں ۔ یہ خوف انسانوں کے دماغ میں موجود سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ختم کردیتا ہے۔ اور وہ ظلم ہوتا دیکھتے ہیں لیکن اسے غلط کہنے کی ہمت تو دور کی بات ہے غلط سمجھنے کی صلاحیت بھی ان کے دماغ سے غائب ہوجاتی ہے۔
عوام کی اکثریت اسی طرح سوچتی ہے اور ظالم کے ظلم کی علامتیں ختم ہونے کے بعد بھی کافی عرصے بعد ان کے ذہن سے وہ خوف نکلتا ہے۔ وہ اس خوف کو اپنی Comitmentکہتے ہیں۔
بھٹو صاحب اور مجیب صاحب دونوں نے اس ملک میں الگ الگ طرح لوگوں کو خوف میں رکھا۔ لوگ برسوں اس میں مبتلا رہے اور اس کے بعد وہ لاہور جوان کا دیوانہ تھا۔ پنجاب جو ان کا گڑھ تھا۔ اب ان کا نام لینے والے بھی بہت کم بچے ہیں لیکن ایک ڈھیٹ طبقہ ہمیشہ اپنے غلط کام اور چیز کو سپورٹ کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔روس میں لینن کا جتنا لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ تھا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ لینن کا مجسمہ لین گراڈماسکو میں گرایا جائیگا۔ کرنل قذافی اور صدام حسین بھی مقبول قیادت کی علامتیں تھیں۔ لیکن کیا ہوا۔ عوام کے شعور آنے میں وقت لگتا ہے۔ اگر کسی کو بتادیا جائے کہ وہ جو کررہا ہے غلط کررہا ہے۔ تو وہ یہ بات تسلیم ہی نہیں کرتا کیوں کہ تسلیم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اتنے عرصے سے غلط کام کررہا تھا یااس کاساتھ دے رہا تھا۔
مثال سے سمجھیں۔ میرے پاس دمہ کاایک بزرگ مریض آیا۔ اس نے بتایا کہ وہ 17سال سے پمپ استعمال کررہا ہے۔ اس کاعادی ہوچکا ہے۔ بابا کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔ وہ اسٹار ہسپتال وائرلیس گیٹ میں میرے پاس آئے تھے۔ میں نے کہا بابامجھے پمپ لے کر دکھائیے۔انہوں نے پمپ منہ کے قریب کرکے دبایا دوا باہر نکل گئی۔ مجھ سے غلطی ہوئی میں نے کہہ دیا کہ انکل یہ دوا اندر نہیں گئی۔ ان کا بیٹا بھی قریب تھا اس نے بھی تائید کی انہوں نے کہا ایسا کس طرح ہوسکتا ہے میں 17سال سے یہ لے رہا ہوں۔ ہم نے انہیں آئینہ کی جانب کھڑا کیا۔ انہوں نے پمپ دبایا تو آئینہ میں نظر آگیا کہ دوا منہ میں جانے کے بجائے ہوا میں اڑ گئی ہے۔ بیٹے کے کہنے پر وہ غصہ میں آگئے۔ جوتا اتار کر اس کی پٹائی کردی۔ کہنے لگے میں ’’کھوتا ہوں۔کھوتا ‘‘ یہ سن کر بیٹے نے کہا میں اماں سے کہوں گابابا جی کہنے لگے آج میں اس کو بھی طلاق دے دوں گا۔میں 17سال سے غلط طریقے سے پمپ لیتا رہا۔ رقم ضائع ہوئی۔ 17سال تکلیف میں گزارے۔ رات کی نیند متاثر رہی،تم ،تمہاری ماں کسی نے نہیں بتایا کہ میں غلط کررہا ہوں۔ میں بہت پریشان ہوں کہ میں 17سال تک بے وقوف بنتا رہا۔
انسان پر غلطی ، آگاہی اور تباہی کی معلومات حاصل ہونے کے بعد ذہنی صدمہ ہوتا ہے۔ اس صدمے کی حالت میں سنبھلنے اور اگر یہ حالت خوف کی وجہ سے رہی ہو تو نکلنے میں وقت لگتا ہے۔ ذہن میں موجود خوف کی وجہ سے بننے والے کیمیائی مادوں کو ختم ہونے میں وقت لگتا ہے۔ اس کا علاج ماہرین نفسیات یہ بتاتے ہیں کہ خوف کی علامتوں کے خاتمے کے ساتھ انسانوں کے ساتھ نرم خوئی کا رویہ رکھا جائے۔ انہیں طعنے نہ دیے جائیں۔ توبہ کی طرف حکمت سے راغب کیا جائے اور ان کے لیے دعا کی جائے کہ وہ خوف وغم سے نجات پاکر آزاد سوچ کی طرف آئیں۔ آزادی ہی انسان کو امن، خوشحالی اور اپنے بنانے والے، پالنے والے کی طرف لے جاتی ہے۔