ڈاکٹر فاروق ستار کا قومی اسمبلی سے خطاب اور ایم کیو ایم۔

194

ایم کیو ایم نے 17اگست کو کراچی پریس کلب کے باہر تادم بھوک ہڑتال کا جو احتجاجی کیمپ لگایا تھا اس کا بنیادی مقصد کارکنوں کی بلا جواز گرفتاری، لاپتااور ماورائے عدالت قتل پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی خاموشی تھا۔بھوک ہڑتالی کیمپ لگانے کے ساتھ ایم کیوایم کے رہنما یہ بھی دعوے کررہے تھے کہ اگر حکومت نے اس احتجاج کے دوران بھی اپنا رویہ نہیں بدلا تو ان کے ارکان اسمبلیوں سے احتجاجاً مستعفی ہوجائیں گے۔احتجاجی کیمپ کے دوران وزیراعظم میاں نواز شریف کراچی آئے اور کیمپ کے قریب سے بغیر احتجاجیوں کو دیکھے ہی گزر گئے۔تاہم 22اگست کو ایم کیو ایم کے بانی کی زہریلی تقریر کے بعد حالات یکسر تبدیل ہوجاتے ہیں۔ بھوک ہڑتال کا آغاز کرتے وقت حکومتوں کا رویہ درست نہ ہونے کی شکایت تھی لیکن قائد الطاف کے خطاب کے بعد پورے ملک کے عوام، بیش تر سیاسی جماعتوں، اور پولیس سمیت تمام ہی تحقیقاتی اداروں کا رویہ سخت ہونا فطری عمل تھا۔ لوگوں نے ایم کیو ایم پر پابندی کے بھی مطالبات کرنا شروع کیے لیکن متحدہ کی رابطہ کمیٹی نے اسمبلی سے مستعفی ہونے سے اس طرح گریز کیا جیسے کہ انہوں نے استعفے کی بات کبھی کی ہی نہ ہو۔بعد ازاں ایم کیوایم پاکستان نے نہ صرف اپنے قائد الطاف حسین بلکہ لندن میں موجود اراکین سے بھی لاتعلقی کا اعلان کردیا۔اب قوم بھی صرف دو ہفتے پرانے متحدہ کے رہنماؤں کے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے دعوے کو بھلا بیٹھی ہے۔یہی نہیں بلکہ کراچی آپریشن شروع ہونے کے بعد سے 5500کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل، بلاجواز گرفتاری اور گمشدگی سمیت دیگر ایشوز کو پس پشت ڈال کر دوبارہ کوٹا سسٹم، مہاجروں کے ساتھ مسلسل زیادتی جیسے قدیم معاملات کو سامنے لانے لگی ہے۔
اہم بات تو یہ بھی ہے کہ جس شخص نے پاکستان مردہ باد اور پاکستان مخالفت کے نعرے لگائے اور لگوائے، اس کے نام پر اسمبلیوں میں موجود افراد کے سہولت کار تو خود حکمران بنے ہوئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت کو پہلی بار الطاف کے ملک دشمنی کے شواہد ملے ہیں۔اس سے قبل بھی الطاف نے ایسے اقدامات کیے، بیانات دیے اور تقاریر کی ہیں۔14اگست 1979کو قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار سے قومی پرچم اتارکر نذرآتش کرنا، اس کے بعد 17ستمبر 2000 کو بھارت کے شہردہلی میں بھارتی اخبار ٹائم آف انڈیا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہنا کہ جنوبی ایشیاء کی تقسیم انسانی کی تاریخ کی بڑی غلطی تھی اور وغیرہ وغیرہ ایسے ناقابل معافی اور تردید شواہد تھے جس کے فوری بعد ان پر اور ان کے نام پر چلنے والی تحریک پر پابندی عائد کردی جاتی تو بات ’’پاکستان مردہ باد‘‘ کے نعروں تک نہیں پہنچتی۔
ملک کے خلاف تازہ نعروں اور تقاریر کے باوجود حکومت کی جانب سے ملک کے اندر ملک دشمن عناصر اور ایم کیو ایم کے بانی کے خلاف فوری کارروائی کرنے سے جس طرح گریز کیا جارہا ہے اسی طرح ماضی میں بھی نظر انداز کیا جاتارہا۔بلکہ ساتھ ہی انہیں غیر معمولی اہمیت بھی دی گئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے دوران الطاف کو غیر معمولی اہمیت دی گئی۔ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے جمہوریت کم آمریت کے دور میں بھی ایم کیو ایم کو بہت اہمیت دی گئی اور اسے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا حصہ بنایا گیا۔اس طرح پرویز مشرف نے بھی سیاسی ضرورتوں کے تحت الطاف کے پاکستان مخالف بیانات اور سرگرمیوں کو نظر انداز کیا۔ایم کیو ایم ملک کی بڑی جماعت نہ ہونے اور دیگر جماعتوں کے مقابلے میں کم عمر ہونے کے باوجود 1988-1990, 1990-1992, 2002-2007,2008-2013کی حکومتوں کا اہم حصے رہی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ایم کیوایم کی خامیوں کو تقریباََ ہر دورکی حکومتیں اپنے استحکام کے لیے نظر انداز کرتی رہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ بلدیہ سمیت ہر طرح حکومتوں میں رہنے کے باوجود ایم کیوایم اپنے ووٹرز کو کچھ بھی نہیں دے سکی۔جب کہ کراچی کے شہری یہ بات بھی محسوس کرتے بلکہ اب اس کا برملا اظہار بھی کرنے لگے ہیں کہ ایم کیوایم کے 18مارچ 1984کو قیام کے بعد جب اسے 8اگست 1986میں کسی بھی طرح عوامی طاقت ملی تب سے لیکر 2013تک کراچی کا سکون مٹ چکا تھا۔ شہرایم کیو ایم کے ہاتھوں یرغمال ہوچکا تھا۔اس کی اجازت کے بغیر عام افراد ہی کیا سرکاری ادارے بھی کسی قسم کی کارروائی کم ازکم کراچی، حیدرآباد اور میرپورخاص میں نہیں کرسکتے تھے۔1986تا 1998میں کوئی ایساسال نہیں گزرا جس میں امن و امان ہو۔اکتوبر 86کے بعد سے دسمبر 1998تک مشکل سے ایک دو ماہ کے وقفے کے بعد کراچی میں خون ریزی، ہنگامہ آرائی ہونا عام ہوگیا تھا۔نتیجے میں شہریوں کو کرفیو جیسی تکلیف دہ صورت حال سے بھی گزرنا پڑتا تھا۔اس دوران سب ہی لوگ جان چکے تھے کہ حالات خراب کرنے میں کون سے عناصر ملوث ہیں لیکن خوف کی وجہ سے کوئی اس حوالے سے گفتگو بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔تاہم 1999 میں پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو ان کا دس سالہ دور کراچی کے شہریوں کے لیے امن و امان کے حوالے سے قدر بہتر رہا۔لیکن یہ دور سیاسی لحاظ سے کسی طور اچھا نہیں تھا ملک پر فوج کا کنٹرول اور کراچی میں ایم کیوایم کا کنٹرول تھا۔لیکن 12مئی 2007 کو جو کچھ کیا گیا اس حوالے سے ایم کیو ایم اور پرویز مشرف کھل کر سامنے آئے۔یہ دن تھا جب پرویز مشرف کے اقتدار کے خاتمے کی شروعات تھی۔اس دن ہی لوگوں کو نو سال بعد یقین ہوگیا تھا کہ ایم کیوایم اب پہلے سے زیادہ طاقتور ہوچکی ہے۔تمام حالات جاننے کے باوجود یہ سوال تو بہت معصومانہ ہوگا کہ اسے طاقت کس نے دی تھی۔لیکن یہی مئی 2007 تھا جب کراچی میں دوبارہ ہر چند روز بعد حالات خراب کیے جانے کا احیاء ہوچکا تھا جو 2013تک جاری رہا۔
دو ستمبر کو ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ بن جانے والے ڈاکٹر فاروق ستار نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے الطاف کی تقریر کے بعد ان سے لاتعلقی کے اعلان کا ذکر کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا کہ ’’معاملہ پاکستان مردہ باد کے نعرے لگانے والے کو رد کرنے کا نہیں ہے، اسے تو پوری قوم نے مسترد کردیا ہے۔معاملہ یہ ہے کہ پاکستان زندہ باد کہنے والوں کو قبول نہ کیا جائے، سینے سے نہ لگایا جائے، فرزند زمین تسلیم کیا نہ جائے۔میں یہ بھی ساتھ کہنا چاہوں گا کہ عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ اگر کوئی معافی نامہ الطاف حسین صاحب کی طرف سے آیا ہے وہ بھی عوام کے سامنے رکھا جائے‘‘۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ آئین میں بھی ملزم کو بھی صفائی کا موقع دیا جاتا ہے۔ڈاکٹر فاروق ستار نے نہ جانے یہ وضاحتی جملے کیوں کہے ؟ کیا مجبوری تھی ؟کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ خود الطاف حسین سے لاتعلقی کے بعد سے غیر معمولی پریشان ہیں۔ اگر ایسا ہے تو انہیں اللہ کی ذات پر یقین رکھنا چاہیے کہ جس اللہ نے ان کے ذہن میں یہ سب کرنے کے لیے ہمت ڈالی اور جذبہ پیدا کی وہی اللہ ان کی حفاظت بھی کرے گا۔
قومی اسمبلی کے اس اجلاس کے حوالے سے جسارت کے نمائندہ خصوصی میاں منیر احمدکی رپورٹ کے مطابق فاروق ستار جب ایم کیو ایم کے کنارے کیے جانے والے قائد کے بارے میں اظہارخیال کررہے تھے تو ایم کیو ایم کے کسی رکن نے بھی ان کی تائید میں ڈیسک نہیں بجائی یہ ایک حیران کن منظر تھا۔تاہم فاروق ستار کے خطاب کے جواب میں حکومت کی جانب سے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ نے سوالات اٹھائے اور کہا کہ ’’ قائد اعظم کے مزار پر اس نے قومی پرچم نذرآتش نہیں کیا تھا ؟ کیا صرف انہی کی جماعت سے وابستہ افراد نے پاکستان کے لیے قربانیاں دی ہیں ؟عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ’’ کب متحدہ اور ڈاکٹر فاروق ستار اپنے طرز عمل سے اور کس طرح متحدہ لندن سے خود کو الگ کریں گے ؟میاں منیر کی رپورٹ کے مطابق عبدالقادر بلوچ کے خطاب کے دوران ایوان کی تیز روشنیاں فاروق ستار کے ماتھے پر آنے والے پسینے کی گواہی دے رہی تھیں۔ لیکن فاروق ستار کی متحدہ اس وقت اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ اٹھ کر بھائی کا دفاع کرتی۔وفاقی وزیر کے ان سوالات کے جوابات کا نہ صرف حکمرانوں بلکہ مع مہاجر پوری پاکستانی قوم کو انتظار ہے۔