کراچی کے المیے اور کوٹا سسٹم

295

13155یام پاکستان کے بعد ہندو مسلم فسادات اور تناؤ کے باعث اردوبولنے والے ا فرا دکی اکثریت نے کراچی میں سکونت اختیار کی اس کے علاوہ دیگر زبان بولنے والے مسلمانوں نے بھی بھارت کی مختلف ریاستوں سے کراچی ہجرت کی،جو افراد ہجرت کرکے کراچی آئے ان کو مہاجر کہاگیا اور ہجرت کرنے والے اب تک اس شناخت سے اپنا پیچھا نہیں چھڑاسکے ہیں،پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد بنگلا دیش سے بہاری بھی لاکھوں کی تعدا دمیں کراچی آئے،افغان جنگ کے دوران میں بڑی تعداد میں افغانی بھی کراچی کی آبادی کا حصّہ بنے،کراچی ہمیشہ سے پاکستان کی معاشی شہہ رگ رہا ہے اس لیے ملک کے دیگر حصّوں سے بھی لوگ بہتر مستقبل کے لیے کراچی کا رخ کرتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔1958 تک کراچی ملک کا دارالحکومت بھی رہا ہے،دارالحکومت جب اسلام آباد منتقل ہوا تو جہاں کراچی کے شہریوں کو اس کا ملال ہوا وہیں اعلیٰ حکام کی کراچی سے دلچسپی، صرف معاشی شہہ رگ ہونے کے حوالے سے رہ گئی، کراچی کی آبادی میں بے ہنگم اضافے کی وجہ سے شہریوں کی سوچ،رہن سہن میں واضح فرق محسوس کیا جانے لگا اس فرق کا سب سے پہلا اظہار،ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی انتخاب کے دوران ہوا،جب شہری واضح طور پر دو دھڑوں میں بٹے نظر آئے اور پہلے لسانی فسادات کراچی میں وقوع پزیر ہوئے گو کہ ان فسادات پر فوری قابو پالیا گیا لیکن دلوں میں جو رنجش پیدا ہوئی اس کے اثرات اب تک محسوس کیے جاتے ہیں۔سقوط ڈھاکا کے بعد زمام اقتدار ذوالفقار علی بھٹو نے سنبھالی،ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کراچی میں باقاعدہ،تعلیم کے حوالے سے اردو زبان نفاذ کے لیے فسادات ہوئے اور ان فسادات کا اثر اندرون سندھ میں بھی محسوس کیا گیا،بڑی تعدا د میں اردو بولنے والے اپنی جان و مال و عزّت آبرو بچانے کے لیے حیدرآباد اور کراچی منتقل ہوئے،اس کے بعد دس سال کے لیے کوٹا سسٹم نافذ کردیا گیااس طرح خود ایک سندھی وزیراعظم،سندھ کو دو حصّوں سندھ شہری اور سندھ دیہی میں تعلیم اور ملازمت کے حوالے سے تقسیم کردیا۔ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کے زمانے میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان کراچی میں اردو بولنے والوں کی نمائندہ جماعتیں تھیں، دونوں جماعتوں نے کوٹا سسٹم کی مخالفت کی۔ 1977کے عام انتخابات کے وقت 9جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن کی جانب سے ایک انتخابی اتحاد قائم
کیا گیا جس کو پاکستان قومی اتحاد کانام دیا گیا،جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان و اسلام،اے این پی،تحریک استقلال اور پیر صاحب پگاڑا پاکستان قومی اتحاد کا حصّہ تھے۔پاکستان قومی اتحاد کے منشور میں بھی کوٹا سسٹم کو ختم کرکے میرٹ پرطلبہ کے داخلوں اورروزگار فراہم کرنے کا وعدہ شامل تھا۔1977 کے عام انتخابات کے نتائج کو پاکستان قومی اتحاد نے تسلیم نہیں کیا اور کہا کہ عام انتخابات میں بڑے پیمانے پردھاندلی ہوئی ہے،اس لیے ازسر نو عام انتخابات کرائے جائیں اور اس کے لیے ملک گیر تحریک چلائی گئی،حکومت نے پاکستان قومی اتحاد کو مذاکرات کی دعوت دی،مذاکرات شروع ہوئے لیکن اسی دوران ملک گیر احتجاج کی وجہ سے فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا،ذوالفقار علی بھٹو گرفتار ہوئے،دوران گرفتاری ان پر ایک پرانے قتل کے مقدمے میں FIRمیں نام درج ہونے کی وجہ سے مقدمہ چلایا گیا اور پھانسی کی سزا سنا دی گئی، جس پر 04 اپریل 1979ء کو عمل درآمد بھی ہوگیا،ان سب عوامل کی وجہ سے کوٹا سسٹم کے خاتمے کی امید بھی دم توڑ گئی،کراچی کے عوام کو امید تھی کہ 1982ء میں کوٹا سسٹم کی دس سالہ میعاد ختم ہوجائے گی تو ہم تعلیم اورروزگا ر میں پھنسے بھنور سے نکل آئیں گے لیکن
ایسانہ ہوا اور کوٹاسسٹم کو مزید دس سال کے لیے بڑھادیا گیا۔ اس فضا میں ایم کیو ایم کا قیام عمل میںآیا،احساس محرومی سے دوچار نوجوانوں میں ایم کیوایم نے فوری مقبولیت حاصل کی ، ایم کیو ایم کا بنیادی مطالبہ بھی کوٹا سسٹم کا خاتمہ تھا لیکن اس کے ساتھ ہی کراچی کے وہ شہری جو دیگر قومیتوں سے تعلق رکھتے تھے ایم کیو ایم کے وجود سے خائف دکھائی دیے اور نوبت لسانی فسادات تک پہنچ گئی،سانحہ علی گڑھ،سانحہ سہراب گوٹھ اور سانحہ پکا قلعہ کے بعد شہر کی فضا میں خوف کا راج قائم ہوگیا۔1988 کے عام انتخابات اور اس کے بعد سے اب تک جتنے بھی عام انتخابات ہوئے۔ کراچی کے شہریوں نے ایم کیو ایم کو ووٹ اسی بنیاد پر دیاکہ یہی ہماری نمائندہ جماعت ہے اور کراچی کے مسائل کا حل بھی ان ہی کے پاس ہے،ایم کیو ایم کئی دفعہ اقتدار کا حصّہ بھی رہی لیکن امن و امان کے ساتھ ساتھ کراچی کے مسائل بڑھتے ہی گئے اور کوٹا سسٹم بھی ختم نہ ہوا۔شہر میں بگڑی ہوئی امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے 1992سے لے کر اب تک کئی آپریشن ہوئے لیکن امن امان کی صورتحال قابو میں نہ آئی۔پرویز مشرف کے اقتدارمیں12مئی،27دسمبر اور09اپریل کو کراچی میں جو کچھ ہوا،وہ بھی تاریخ کا حصّہ ہے،2008 کے عام انتخابات میں اندرون سندھ
بقیہ نمبر 1صفحہ نمبر11

سے پیپلز پارٹی اور شہروں سے ایم کیو ایم کو مینڈیٹ ملا، دونوں جماعتوں نے مخلوط حکومت بھی بنائی جو ہمیشہ اختلافات کا ہی شکار رہی اور کراچی سمیت پورے سندھ میں نہ کوئی ترقیاتی کام ہوئے اورنہ امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی بلکہ لیاری میں پیپلز امن کمیٹی کے وجود سے شہر کی امن وامان کی صورتحال مزید بگڑگئی اور روزانہ شہر کراچی کو کئی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا ، یہ صورتحال 2013 کے عام انتخابات کے بعد بھی جاری تھی۔ سپریم کورٹ نے کراچی کی صورتحال کا از خود نوٹس لیا اورذمے داروں کا تعیّن کرکے حکومت کو ہدایت کی کہ شہر میں امن و امان کی قائم کرے،ستمبر2013 سے تمام جماعتوں کے اتفاق سے ایک دفعہ پھر کراچی میں آپریشن کا آغاز ہوا،اس دفعہ رینجرز کو خصوصی اختیارات کے ساتھ شہر میں امن و امان قائم کرنے کی ذمے داری سونپی گئی۔ جس کے بعد شہر میں امن و امان کی فضا قائم ہوئی لیکن کراچی کے شہریوں کا احساس محرومی ابھی بھی برقرار ہے کیوں کہ کراچی جو کبھی عروس البلاد کہلاتا تھا اپنی وہ حیثیت کئی عشروں قبل ہی کھوچکا ہے، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر، ذرائع آمد و رفت کی ناگفتہ بہ صورتحال کے ساتھ ساتھ کوٹا سسٹم اب بھی کراچی کے شہریوں کے لیے مسئلہ ہے جس کی میعاد 2013 میں ختم ہو چکی ہے لیکن عمل ابھی بھی کوٹا سسٹم پر ہورہا ہے،ڈی جی رینجرز نے حکومت سندھ کی توجہ اس جانب دلائی ہے کہ میعاد ختم ہونے کے بعد اس پر عمل ناجائز ہے۔
کراچی کے المیے اور کوٹا سسٹم