کوشش

202

بنتِ سید داؤد شاہ گیلانی

کسی گاؤں میں چار دوست رہتے تھے۔ نام تھے ان کے: حسن، ذوالفقار، عمر اور سیف۔ وہ چاروں اکٹھے بیٹھ کر پڑھتے اور ایک ساتھ کھیلتے تھے۔ ان کو پاکستانی فوجیوں اور مجاہدوں کی کہانیاں سننے میں بہت مزا آتا تھا اور وہ بھی بڑے ہوکر ایسا ہی بننا چاہتے تھے۔
ایک دن انہوں نے ٹی وی پر خبر دیکھی کہ بھارتی فوجیوں نے ایک کشمیری کمانڈر برہان وانی کو شہید کردیا ہے اور بہت سارے کشمیریوں کو مار دیا ہے تو انہیں بہت دکھ ہوا۔ جب انہیں پتا چلا کہ ان جیسے چھوٹے چھوٹے کشمیری بچوں کو بھارتی فوجی باہر کھیلنے بھی نہیں دیتے اور کھانے پینے کی کوئی چیز بھی نہیں لینے دیتے تو انہیں اور بھی غصہ آیا۔ ان کی ٹیچر نے انہیں بتایا کہ بھارتی فوجیوں نے اسپتال میں گھس کر زخمی کشمیریوں کو بھی مارا ہے اور ان کے لیے دوائیں بھی نہیں لانے دیتے، تو وہ بولے: ’’ٹیچر ہم ان کشمیریوں کی کوئی مدد بھی نہیں کرسکتے، ہم تو ابھی بہت چھوٹے ہیں پھر ہم کیا کریں؟‘‘ ان کی ٹیچر نے انہیں بتایا کہ اگر ہم میں سے ہر آدمی کشمیریوں کے لیے تھوڑے تھوڑے پیسے بھی بھیجے تو ان کے لیے ڈھیر ساری رقم اکٹھی ہوجائے گی۔ پاکستان میں 19 کروڑ لوگ رہتے ہیں، اگر ایک آدمی ایک روپیہ بھی دے تو ان کے لیے 19 کروڑ روپے اکٹھے ہوجائیں گے۔ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے لیکن پھر بھی اسے قائم رکھنے کے لیے ہر یہودی اپنی آمدنی کا 10 فیصد حصہ اسے دیتا ہے۔ تو کیا ہم اپنی شہ رگ بچانے کے لیے ایک روپیہ بھی نہیں دے سکتے؟‘‘
’’کیوں نہیں ٹیچر!‘‘ وہ ایک زبان ہوکر بولے ’’ہم خود بھی کشمیریوں کے لیے پیسے دیں گے اور دوسرے لوگوں کو بھی بتائیں گے کہ کشمیریوں کو مدد کی ضرورت تھے۔‘‘
ان کی ٹیچر نے انہیں ایک چھوٹے سے ڈبے پر کاغذ کا کور چڑھا کر دیا اور اس پر ’’کشمیر فنڈ‘‘ لکھ دیا۔ اپنا کام ختم کرتے ہی انہوں نے وہ ڈبا اپنی سائیکل پر رکھا اور چندہ جمع کرنے نکل گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں چاروں دوستوں کے پاس اس ڈبے میں ڈھیر سارے پیسے اکٹھے ہوگئے کیونکہ جب لوگوں کو پتا چلا کہ کشمیریوں کو ان کی مدد کی ضرورت ہے تو انہوں نے تھوڑے تھوڑے ہی سہی، مگر پیسے دیے ضرور ۔ اب وہ چاروں بہت خوش تھے کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ہاں مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنے والوں میں اپنا نام لکھوا لیا تھا۔ ’’ٹیچر! ہمیں ثواب تو ملے گا ناں؟‘‘ وہ بولے۔ ’’ہاں، ہاں کیوں نہیں، ننھے ننھے بچوں کی محنت اور کوشش تو اللہ تعالیٰ کو اور بھی پیاری ہوتی ہے‘‘ وہ بولیں، ’’اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں جنت میں آپ کے لیے ڈھیر ساری چیزیں اکٹھی کررکھی ہیں‘‘۔
یہ سن کر وہ سب بہت خوش ہوئے۔
تو پیارے بچو! اگر آپ بھی کشمیریوں سے محبت کرتے ہیں اور انہیں ظالم بھارتیوں سے چھڑانا چاہتے ہیں تو آپ کو بھی قدم بڑھانا ہوگا۔ آپ کی ایک چھوٹی سی کوشش بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑی ہوگی جس کے بدلے آپ کے لیے جنتوں میں ڈھیر سارے انعامات ہوں گے۔ تو پھر کیا خیال ہے آپ کا بچو؟