سید مہرالدین افضل
سورۃالانعام کے مضامین کا خلاصہ از تفہیم القرآن
(چھٹا حصہ)
دورانِ حیات والدین کے حقوق:
والدین کی زندگی میں اُن کے ساتھ تمام معاملات میں احسان کے ساتھ پیش آئیں۔ اپنی طاقت بھر ان کے ساتھ ہر نیکی اور بھلائی کریں۔ ان کے ساتھ ہمیشہ نرمی کا برتاؤ کریں۔ ان کے سامنے چھوٹے بن کر رہیں اور ان کی آواز سے اپنی آواز ہلکی رکھیں۔ ان کی عزت و وقار کا خیال رکھیں اور ان کو راضی کرنے اور خوش رکھنے کی کوشش میں لگے رہیں، اور ان کی فرماں برداری کریں۔ ان کے لیے ہمیشہ غائبانہ طور پر دعا کرتے رہیں ’’رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا‘‘ ان کے لیے بہترین دعا ہے۔ دل وزبان سے ان کے حقوق کا اعتراف کریں۔ ان سے دعائیں لیا کریں۔ ان کے دوستوں کی عزت کریں۔ ان کی وجہ سے قائم رشتوں کو جوڑیں اور ان کے حقوق ادا کریں۔
کن باتوں سے بچنا ہے:
والدین کی نافرمانی اور ان کو تکلیف دینے سے۔۔۔ ان کی ناراضی اور ناخوشی سے۔۔۔ اپنی بیوی اور اولاد کو ان پر فوقیت دینے سے۔۔۔ ان کی بددعا سے۔۔۔ ان کو گالی دینے، برا بھلا کہنے، ڈانٹنے ڈپٹنے اور جھڑکنے سے۔ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی دے‘‘۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کوئی شخص اپنے والدین کو بھی گالی دیتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں، یہ کسی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو دوسرا اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، اور یہ کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے، نہ یہ کسی کے ماں باپ کو گالی دیتا نہ وہ اس کے ماں باپ کو گالی دیتا۔‘‘ (بخاری) ان کی کسی بات پر اُف یا ہشت یا ہونہہ کہنے سے اپنے آپ کو روکیں۔
بعد از وفات حقوق:
ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی اور رحمت کی دعائیں کریں۔ ان کی سکھائی ہوئی اچھی باتوں کو یاد رکھیں، ان پر عمل کریں، ان کا چرچا کریں، اور انہیں اپنی اولاد کو سکھائیں۔ ایسے کام کریں جو ان کے لیے صدقۂ جاریہ اور درجات کی بلندی کا ذریعہ بنیں۔ ان کے رشتے داروں، دوست و متعلقین کی عزت کریں اور ضرورت پر ان کی مدد کریں۔ ان کی امانت و قرض ادا کریں۔ ان کی جائز وصیت پر عمل کریں۔ ان کی قبر پر جایا کریں۔
اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو:
جن بڑے بڑے اصولِ اخلاق پر اسلام سوسائٹی کی تعمیر کرنا چاہتا ہے ان میں تیسرا اصول نسلِ انسانی کی بقا سے متعلق ہے۔ ارشاد ہوا ’’اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے‘‘۔
تصور کیجیے، اگر اٹھارہ سال کی عمر کے انسان زمین پر ٹپک جاتے، تو انہیں خاندان بنانے کی کیا ضرورت ہوتی! جس جگہ وہ اتارے جاتے وہاں پہلے سے موجود لوگ ان کا استقبال کرتے، اور زمین پر زندگی سے متعلق کچھ بنیادی معلومات فراہم کردیتے، جوابی طور پر وہ بھی اپنے بعد آنے والوں کا استقبال کرتے۔ لیکن جس طرح انسان پیدا ہوتا اور پرورش پاتا ہے، وہ بہت سارے لوگوں کا مقروض ہوجاتا ہے، اور اسے ہوش سنبھالتے ہی سب قرض ادا کرنے ہوتے ہیں۔ اسلام ان کی ادائیگی کے لیے خاندان بناتا ہے، اور انسان کو خدا کے بعد سب سے پہلے والدین کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیتا ہے، اور اسے تعلیم دیتا ہے کہ اپنے بعد اسے نسلِ انسانی کی بقا کے لیے اپنے سے بہتر لوگ چھوڑ کر جانا ہے۔ لیکن قدیم زمانے سے آج تک انسان بھوک اور افلاس کا بہانہ بناکر اولاد کو قتل کرتا رہا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے ’’ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں، انہیں بھی دیں گے‘‘۔ فراہمئ رزق کا وعدہ سب سے ہے۔۔۔ فرماں برداروں سے بھی، اور نافرمانوں سے بھی۔ اور واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر پیدا کیا تو پیدائش سے پہلے سارے وسائل اتارے۔ پانی، ہوا اور روشنی و حرارت ہی نہیں، بلکہ ہر چیز سارے انسانوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے، زمین پر کافی مقدار میں فراہم کی ہے۔۔۔ زمین پر 7 ارب انسان ہوں یا 30 ارب سب کے لیے۔ بھوک اس لیے نہیں ہے کہ گندم پیدا نہیں ہوتی، چاول کم ہے۔ ہرگز نہیں! بھوک اس لیے ہے کہ کچھ لوگوں نے اپنی ضرورت سے ہزار گنا زیادہ اسٹور کیا ہوا ہے، ظاہر ہے کسی کا حق مارا ہے، یہ سراسر انتظامی اور تقسیمِ وسائل کا مسئلہ ہے، اسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اور انسان کا کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رزق کے جو ذرائع پیدا کیے ہیں ان کو زیادہ سے زیادہ بڑھائے، اور استعمال کرنے کی کوشش کرے، اور جو ذرائع اب تک چھپے ہوئے ہیں انہیں دریافت کرنے کی کوشش کرے۔ تاریخِ انسانی گواہ ہے کہ جیسے جیسے انسان زمین پر بڑھتے جاتے ہیں رزق کے نئے نئے وسائل دریافت ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس دریافت میں نئے آنے والوں کا حصہ زیادہ ہے۔ لیکن انسان سستی، کاہلی اور عیش پرستی کی خواہش میں رزق کی تنگی کا بہانہ بناتا ہے۔
قتلِ اولاد کے نتائج:
قتلِ اولاد کا لازمی نتیجہ زنا کی صورت میں نکلتا ہے، کیونکہ جب مستقبل کی کوئی ذمہ داری نہیں تو۔۔۔ جیسے چاہو جیو۔۔۔کسی عہد اور معاہدے کی کیا ضرورت! بس وقتی آمادگی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ یہ سوچ انتہائی خودغرضی پیدا کرتی ہے۔ جو اپنی اولاد کو اپنی روٹی میں شریک کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔۔۔ وہ یتیموں، بیواؤں کا خیال کہاں کرے گا! آج کل معیارِ زندگی کو بلند رکھنے کا بہانہ عام ہے کہ اولاد اتنی پیدا کرو، جن کو بلند معیارِ زندگی دے سکو۔ ذرا سوچیے! جو اپنے معیارِ زندگی کو بلند کرنے کی خاطر، اپنی اولاد کو قتل کرنے کے لیے تیار ہوجائے وہ اپنے بوڑھے ماں باپ، غریب بھائی بہنوں، محتاج رشتہ داروں کا وجود کیسے برداشت کرے گا! یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں خودغرضی عام ہے۔ یہی سوچ لڑکیوں کو بالخصوص قتل کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ تفصیلات سے آپ اچھی طرح واقف ہیں۔۔۔ اور آخری نتیجہ شرح پیدائش کے مقابلے میں شرح اموات بڑھ کر انسانیت ہی کے قتل کی صورت میں نکلے گا۔ بعض نسلوں اور قوموں کی حد تک تو یہ صورت حال پیش آچکی ہے اور وہ اب پیداوار بڑھانے کی تحریک چلا رہی ہیں۔ مسلمانوں پر ان کے غصے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ مسلمان شرح پیدائش میں اضافے کے سبب بڑھتے جارہے ہیں اور وہ گھٹ رہے ہیں اور آئندہ بیس سالوں میں یہ فرق بہت نمایاں ہوجائے گا۔
عورت کا استحصال:
آج انسانوں کی بڑی تعداد اس مائنڈسیٹ کے ساتھ زندگی میں آگے بڑھ رہی ہے، جیسے وہ اٹھارہ سال کے، اس دنیا میں کہیں سے کچھ قوتوں کے ساتھ آگئے ہیں، اب وہ جیسے چاہیں ان کا استعمال کریں۔ اس مائنڈسیٹ میں نہ کہیں رشتے ناتے ہیں، نہ ان پر کسی کا کوئی حق ہے، نہ حیا ہے، نہ وفا۔۔۔ بس آزادی ہے، مادر پدر آزادی۔ عورت قدرتی طور پر کمزور اور نادان ہے، اس لیے مرد اس کی ان دونوں کم زوریوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور اس کا بدترین استحصال کررہا ہے۔ ماں بننا اور بنتے رہنا عورت کی فطری خواہش ہے۔ لیکن مرد کہتا ہے کہ اولاد پیدا کرکے تمہارا حسن ماند پڑجائے گا، اور عورت بے وقوف بنتی ہے، خوش ہوجاتی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اولاد پیدا کرکے وہ مرد کے شانہ بہ شانہ محنت مزدوری کرنے کے قابل نہیں رہ پاتی، کم از کم زچگی کے قریبی دنوں میں اور پیدائش کے بعد دودھ پلانے کے دنوں میں۔ اس سے پہلے ہر ماہ اس کی کمزوری کے دنوں میں اسے Always کا دھوکا دیتا ہے، کہ تم تو ہمیشہ فٹ رہتی ہو، آؤ کام کرو۔ آج عورت کے ساتھ جو سلوک برابری کے نام پر ہورہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ جب کہ عورت کے ناز نخرے اٹھانا اس کا پیدائشی حق ہے جو پہلے باپ اور بھائی اٹھاتے ہیں، پھر شادی کے بعد اس کے ناز نخرے اور خرچے اٹھانا شوہر کی ذمہ داری ہے۔ وہ اپنے باپ کے گھر میں شہزادی اور شوہر کے گھر میں ملکہ ہوتی ہے۔ افسوس کہ ہم مسلمان اس ہدایت کے ہوتے ہوئے اسے عام کرنے کے بجائے خود اس مہم کا شکار ہورہے ہیں۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔
وآخر دعوانا انالحمد و للہ رب العالمین ۔