ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے خلاف گزشتہ جمعہ کو قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر قرارداد مذمت منظور کرلی گئی۔ اس قرارداد کی تائید ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی نے بھی کی گو کہ ایم کیو ایم پاکستان کے قائد ڈاکٹر فاروق ستار نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ یہ قرارداد ایم کیو ایم کو پیش کرنے کا موقع ملنا چاہیے تھا۔ الطاف حسین کئی بار یہ ثابت کرچکا ہے کہ وہ غدار پاکستان ہے لیکن 22 اگست کی تقریر میں تو الطاف حسین نے اپنے پاکستانی کارکنوں سے بھی پاکستان کے خلاف نعرے لگوائے اور انہیں توڑ پھوڑ کے لیے اُکسایا۔ فاروق ستار، عامر خان اور دیگر رہنما خاموش بیٹھے رہے، اٹھ کر یہ نہیں کہاکہ الطاف حسین بکواس کر رہا ہے۔ اس کی ہمت بھی نہیں تھی۔ کیوں کہ تقریر سے پہلے تک تو الطاف حسین ان سب کا مائی باپ اور قائد تھا۔ اب بھی ایسا لگتاہے کہ کنویں میں سے نجس جانور تو نکال لیا گیا ہے مگر پانی کے چالیس ڈول نہیں بہائے گئے۔ چنانچہ پانی بودے رہا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے نئے رہنماؤں کے زبان و دل ایک دوسرے کے رفیق نہیں ہیں۔ پاکستان کو ناسور، دہشت گردی کی آماجگاہ اور مردہ باد کہنے والے کو فاروق ستار سمیت رابطہ کمیٹی پاکستان کے کسی فرد نے کھل کر غدار کہنے کی جرأت نہیں کی بلکہ گزشتہ جمعرات کی شب ہی تو اپنے گھر پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے فاروق ستار فرمارہے تھے کہ ’’ہم بان�ئ ایم کیو ایم کا احترام پہلے بھی کرتے تھے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ ایک پاکستان دشمن اور بھارت کے ایجنٹ کا احترام کرنے والے کیا خود بھی دشمنوں اور غداروں کی صف میں نہیں کھڑے ہوئے؟ فاروق ستار اب تک یکسو نہیں ہوئے کہ انہیں کیا کہنا اور کیا کرنا چاہیے۔ لگتا ہے کہ انہیں پہلے اور آخری چیئرمین عظیم احمد طارق، ڈاکٹر عمران فاروق اور قائد کے ایسے کئی ’’غداروں‘‘ کے انجام کا خوف کھائے جارہاہے۔ فاروق ستار غدار الطاف حسین کو خوش رکھنے کے لیے اس کو محترم بنارہے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ندیم نصرت اب بھی رابطہ کمیٹی کاکنوینر ہے۔ جب کہ ندیم نصرت اور واسع جلیل وغیرہ کھل کر الطاف حسین کی بکواس کی تائید کررہے ہیں۔ ندیم نصرت اگر اب بھی کنوینر ہے تو کیا تبدیلی آئی؟ فاروق ستار یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ مشورے سب سے کریں گے، فیصلہ خود کریں گے۔ اس میں الطاف حسین بھی شامل ہوسکتا ہے۔ غدار کے ساتھی واسع جلیل نے اعلان کیا ہے کہ ’’بان�ئ تحریک کے بغیر متحدہ کی کوئی حیثیت نہیں، مائنس الطاف فارمولا قبول نہیں ہے، قائد تحریک کے ساتھ تھے اور ساتھ رہیں گے۔ فاروق ستار کی سوئی کہیں اور اٹکی ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 22 اگست کا واقعہ مسئلہ نہیں، اصل ایجنڈا کچھ اور ہے۔ اور یہ ایجنڈا زمینوں پر قبضے کرکے ایم کیو ایم کے دفاتر کی مسماری رکوانا اور الطاف حسین کے حکم پر ڈنڈے برسانے والی خواتین کو رہا کروانا ہے۔ توڑ پھوڑ میں ملوث جو خواتین اور مرد پکڑے گئے ہیں وہ ویڈیو فوٹیج کے ذریعے پہچانے گئے ہیں اور اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ رینجرز نے فاروق ستار کو ایک رات اپنے پاس رکھ کر ان کی شناخت کروائی تھی۔ فاروق ستار کا مطالبہ ہے کہ سیاسی دفاتر سیل نہ کیے جائیں۔ لیکن جب یہ دفاتر ناجائز ہوں اور سیاست کے نام پر دہشت گردوں کی پناہ گاہ بن جائیں تو کیا کیا جانا چاہیے؟ فاروق ستار شور مچارہے ہیں کہ ہمیں دیوار سے لگایا جارہاہے، ہمیں کٹہڑے میں کھڑا کردیاگیا۔ کہتے ہیں یہ 38 سال کی جد وجہد ہے۔ لیکن کیا فاروق ستار نہیں جانتے کہ ان کے ممدوح نے اپنی حرکتوں سے کراچی کے اردو بولنے والوں کو برسوں سے دیوار سے لگا رکھا ہے اور کٹہڑے میں لاکھڑا کردیاہے؟ قومی اسمبلی میں منظور کردہ قرارداد میں الطاف حسین کی تقریر کو پاکستان کی اساس اور سالمیت پر حملہ قرار دیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا الطاف حسین نے یہ حملہ پہلی بار کیا ہے؟ اس سے پہلے وہ کئی بار یہ کام کرچکا ہے۔ لسانیت کو ہوا دینا اور قتل و غارت گری کروانا کیا پاکستان کی سالمیت کے لیے تھا؟ کراچی کو تو الطاف اور اس کے ساتھیوں نے تباہ کردیا لیکن ہر سیاست دان اس کے در پر سجدہ ریز ہوکر اس کا قد بڑھاتا رہا۔ جب ضرورت پڑی بے نظیر نے کلیجے سے لگایا۔ پھر نواز شریف نے سر پر بٹھایا اور پرویز مشرف کی تو کیا بات کی جائے جس نے قاتلوں کے ٹولے کو عوامی طاقت قرار دیا۔ لیکن الطاف حسین اکیلا تو نہیں تھا۔ 22 اگست سے پہلے تک پوری ایم کیو ایم قیادت اس کے ساتھ تھی۔ اس اشتعال انگیز خطاب کی صفائی پیش کرنے کے لیے نام نہاد ڈاکٹر عامر لیاقت اسی شب کو ٹی وی پر پیش ہوگیا تھا۔ وجہ یہ کہ الطاف حسین کی وجہ ہی سے پرویز مشرف نے عامر لیاقت کو مذہبی امور کا مشیر مقرر کیا تھا۔ مذہب کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہوسکتی ہے؟ قومی اسمبلی میں کہا گیا ہے کہ ملک مخالف نعرے لگانے والوں کے خلاف آئین و قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ یہ کارروائی الطاف حسین کے خلاف کیسے ہوگی جو فساد کی جڑ ہے۔؟