قسط نمبر48
ساتواں حصہ
بوسنیا اور سروبیا کی فتح کے بعد یہاں کے بہت سے عیسائی خاندان مسلمان ہوکر مملکتِ عثمانیہ کے وفادار بن گئے۔ تاہم کچھ رئیس اور سردار ایسے بھی تھے جنہوں نے ماضی کی طرح اب بھی اپنی سازشیں جاری رکھیں۔ چنانچہ ان کو سلطنت کا غدار ہونے کے جرم میں سزائیں دی گئیں۔ اسلام قبول کرنے کے معاملے میں کسی پر کوئی زبردستی نہیں تھی۔ عیسائی آبادیوں کو مکمل مذہبی حقوق پہلے کی طرح بدستور حاصل رہے۔
کچھ عرصے تک تو سلطان مراد ثانی نے مفتوحہ علاقوں کا انتظام و امورِ سلطنت اپنے ہاتھ میں رکھے، لیکن اس سے فارغ ہوتے ہی ایک مرتبہ پھر اپنے بیٹے محمد خان کو حکمرانی سونپتے ہوئے معاملات سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
لیکن محمد خان کے دوبارہ حکومت سنبھالتے ہی عثمانی فوج میں بغاوت کے آثار دکھائی دینے لگے۔ بدانتظامی اور شاہی فوج کی خودسری حد سے تجاوز کرتی جارہی تھی۔ ان میں ینگ چری فوج پیش پیش تھی۔ ان کا خیال تھا کہ ان تمام تر فتوحات میں ینگ چری کا کردار سب سے اہم ہے اس لیے ان کی تنخواہوں اور مراعات میں مزید اضافہ ہونا چاہیے۔ ینگ چری (شاہی خصوصی دستے) کے ان نامناسب مطالبات کو ماننا محمد خان کے لیے مشکل تھا، کیونکہ پہلے ہی ان کی مراعات فوج کے دوسرے دستوں کے مقابلے میں بہت زیادہ تھیں، جس پر فوج کے عام دستوں میں عدم اطمینان پایا جاتا تھا۔ ینگ چری فوج نے جب دیکھا کہ ان کے مطالبات پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی تو انھوں نے عام فوج میں بددلی پھیلانا اور کھل کر بغاوت کی دھمکیاں دینا شروع کردیں۔ معاملات اس حد تک بگڑ چکے تھے کہ ینگ چری دستے کھلے بندوں لوٹ مار کرنے لگے تھے۔ سلطنتِ عثمانیہ ایک مرتبہ پھر شدید بحران میں مبتلا تھی۔ ماضی میں بھی اس طرح کی بہت سی سازشیں ہوچکی تھیں مگر اِس مرتبہ مرکز میں شاہی دستے کی جانب سے بغاوت نے محمد خان کے لیے بہت مشکل حالات پیدا کردیے۔
سلطان مراد خان کو مجبوراً اِس مرتبہ بھی حجرے سے باہر آنا پڑا۔ سلطان مراد خان میدانِ جنگ کا شہسوار تھا۔ دشمن کے مقابلے میں ہر مرتبہ اللہ کے کرم سے کامیابی نے اس کے قدم چومے۔ عثمانیوں کی تاریخ میں سلطان مراد خان ہمیشہ ناقابلِ شکست رہا ہے۔ سلطان نے معتمد جانبازوں کو اپنے ساتھ لیا اور ایشیائے کوچک سے نکلتا ہوا ایڈریانوپل جا پہنچا۔ رعایا نے جب دیکھا کہ ان کا چہیتا سلطان خود نکل آیا ہے تو پوری آبادی سلطان کے استقبال کے لیے موجود تھی۔ ان میں اب تک کے عیسائی خاندان بھی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ استقبالی جلوس میں موجود تھے۔
سلطان نے محمد خان کو ایشیائے کوچک کی ریاستوں میں بھیج کر حکومت سنبھالنے کا حکم صادر کیا۔ اس کے خیال میں محمد خان کو ابھی مزید تجربے کی ضرورت تھی جو کوچک کی ریاستوں میں انتظامی معاملات سنبھالنے سے مل سکتا تھا۔
سلطان مراد خان کی پوری توجہ ینگ چری فوج کے سرکش باغیوں کی گوشمالی پر مرکوز تھی۔ اس نے فوج کے باغی اور فسادی عناصر کو ٹھکانے لگایا اور عام سپاہیوں کی مراعات میں اضافہ کیا۔ سلطان کے اس عمل نے مجموعی اعتبار سے عام فوج کا مورال بلند کیا۔ دوسری طرف ینگ چری فوج کے باغی عناصر کو بغاوت کے جرم میں عبرتناک سزائیں دے کر اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا۔ ان اقدامات کے بعد سلطان نے اقتدار اپنے ہی ہاتھ میں رکھنے کا فیصلہ کیا اور اپنے انتقال تک اقتدار محمد خان کو منتقل نہیں کیا۔
سلطان مراد خان نے اپنی تمام تر توجہ انتظامات کی بہتری اور سلطنت کی مضبوطی پر مرکوز رکھی۔ اس نے آس پڑوس کی عیسائی ریاستوں سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ مگر اس کے باوجود عیسائی ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف سازشیں اپنا کام کرتی رہیں۔ مگر ماضی کے ایک کردار جان ہنی ڈیزیا کو عزت راس نہیں آئی۔ پچھلی ذلت آمیز شکست میں معافی اور جاں بخشی کے باوجود اُس نے عیسائی ریاستوں سے مدد مانگی اور اس مرتبہ بھی عیسائی ریاستوں نے اُس کی بھرپور مدد کا فیصلہ کیا۔ شاہِ قسطنطنیہ اس کا سب سے بڑا مددگار تھا۔ سب سے بڑی فوجی امداد اسی نے فراہم کی۔
عیسائی مشترکہ افواج نے اپنی موت اور ذلت کے لیے اپنے طور پر کوسوو کا میدان منتخب کیا۔ ان کا خیال تھا کہ یہاں کے 90 فیصد عیسائی علاقے پر ان کے مذہب کا راج ہے، لہٰذا کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اور سلطان کو اپنے مرکز سے یہاں نکال کر لانے میں اگر عیسائی کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ جگہ سلطان کے لیے موت کا کنواں بن جائے گی۔ اس طرح ہم بیچ میدان میں سلطان کی فوج کو چاروں جانب سے گھیر کر اور ایک طویل جنگ میں پھانس کر عثمانی فوج کو شکست سے دوچار کردیں گے۔ ان کے اس خیال کو تقویت یوں بھی ملتی تھی کہ ان کی مذہبی کتابوں اور قصے کہانیوں میں ان کی عظیم فتح ایک بڑی شکست کے بعد ہی مل سکتی تھی۔ اور ان کے خیال میں پچھلی صلیبی یلغار میں وہ عظیم شکست سے دوچار ہوچکے تھے، لہٰذا اب کی بار یہ جنگ ان کے لیے فتح کی نوید ثابت ہوگی۔
سلطان نے جان ہنی ڈیزیا کا چیلنج قبول کرتے ہوئے آگے نکل کر کوسوو جانے کا سخت اور مشکل فیصلہ کیا۔ اور اپنی افواج کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔
سلطان جان ہنی ڈیزیا کی جنگی تکنیک کی رگ رگ سے واقف تھا۔ اس کو بھی معلوم تھا کہ اُس کے دماغ میں، گھیر کر مارنے کی کھچڑی پک رہی ہے۔ لہٰذا سلطان مراد خان نے نئی حکمت عملی ترتیب دی جس کا علم یا تو سلطان کو تھا یا پھر فوجی دستوں کے سالاروں کو۔
سلطان نے اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ پہلے حصے میں کُل افواج کا ستّر فیصد حصہ تھا جس کو کوچ کا حکم دیا گیا تھا، اس کی سالاری ینگ چری فوج کے آزمودہ کار جرنیل کو دی۔ اس فوج کو حکم تھا کہ محاذِ جنگ پر پہنچ کر ہمارا انتظار نہ کیا جائے بلکہ حالات دیکھ کر یا صلیبیوں کی دعوتِ مبارزت پر جنگ شروع کردی جائے۔ سلطان نے اس فوج کو باور کروایا کہ میں خود اس معرکے میں شامل نہیں ہونا چاہتا کیونکہ میں تمہاری صلاحیتوں کو آزمانا چاہتا ہوں۔ ماضی کی بغاوت نے تمہاری کارکردگی پر جو سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے، اس دھبے کو دھونے کے لیے یہ فتح کتنی ضروری ہے۔
اس فوج کے روانہ ہونے کے بعد سلطان نے باقی رہ جانے والی فوج کو مزید دو حصوں میں بانٹا اور ایک کی قیادت خود سنبھالی اور دوسرے حصے کی قیادت اپنے ہونہار بھتیجے کے سپرد کی۔ دونوں حصوں کی افواج نے الگ الگ راستوں کا انتخاب کیا۔ ایک راستہ وہ تھا جو قدرے طویل تھا کہ اگر آج ہی روانہ ہوتا تو کوسوو کے میدانوں تک پہنچنے میں دو دن کی تاخیر پیش آسکتی تھی۔ مگر سلطان مراد کی حکمت عملی یہی تھی کہ یہ دستے میدانِ جنگ میں دو روز کی تاخیر سے ہی پہنچیں۔ اسی طرح سلطان مراد نے اپنے زیرکمان دستوں کو اپنے متعین کردہ خفیہ راستے پر ڈال دیا، جس کا علم سلطان کے سوا کسی کو نہ تھا۔
پہلا بڑا مرکزی لشکر کوسوو پہنچ چکا تھا۔ سامنے جان ہنی ڈیزیا اپنے صلیبی لشکر کے ساتھ موجود تھا۔ پوری رات دونوں افواج کے جاسوس دستے ایک دوسرے کی فوجی طاقت کا اندازہ لگاتے رہے۔ جان ہنی ڈیزیا کو جب معلوم ہوا کہ اس لشکر کی قیادت سلطان کے ہاتھ میں نہیں ہے اور فوج کی تعداد بھی اندازے سے نہایت کم ہے تو اس نے مشاورت سے فیصلہ کیا کہ سپیدہ سحر کے پھوٹتے ہی عثمانی لشکر پر دھاوا بول دیا جائے۔
جان ہنی ڈیزیا نے اپنی تمام سپاہ کو یکبارگی مکمل قوت کے ساتھ جنگ میں جھونکنے کا فیصلہ کیا۔
دوسری جانب وفادار عثمانی سپاہی اور ینگ چری کماندار ماضی کے داغ دھونے کو بے تاب تھے۔ ان کے نزدیک داغ دھونے کا اس سے بہتر موقع کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ چنانچہ سورج کی پہلی کرن کے نمودار ہوتے ہی تلواریں نیام سے باہر نکل آئیں۔ گھوڑوں کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دی گئیں۔ خیمے خالی اور میدانِ جنگ متحارب فوجوں سے بھر چکا تھا۔ ایک طرف صلیبی خوش تھے کہ سلطان مراد کے بغیر اس کی فوج کا مورال یقیناًآدھا رہ گیا ہوگا۔ مگر ان کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ سلطان نے اپنے آپ کو بظاہر میدانِ جنگ سے علیحدہ رکھ کر اپنی فوج کو ایک آتش فشانی لشکر میں تبدیل کردیا تھا جہاں عددی برتری کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ صلیبی نقاروں نے ہیبت ناک آواز میں بجنا شروع کیا اور صلیبی افواج ایک مخصوص مذہبی ترانے پڑھتے ہوئے عثمانیوں کی جانب لپکیں۔ سامنے سے نعرۂ تکبیر اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں نے عثمانی لشکر میں بجلی سی بھر دی تھی۔ پوری قوت کے ساتھ تلواریں آپس میں ٹکرائیں۔ صبح سے دوپہر اور پھر شام ہوچلی تھی۔ عثمانی نہ صلیبی، دونوں میں سے کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھا۔ رات میدان جنگ میں کام آجانے والوں کو اکٹھا کرنے میں گزری۔ صلیبیوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا تھا مگر ان کی عددی برتری اتنی زیادہ تھی کہ انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ رات جنگ رکی تو اندازہ ہوا کہ عثمانی لشکر ایک چوتھائی شہید ہوچکا ہے۔
عثمانی دھن کے پکے نکلے۔ شہدا کی تدفین اجتماعی قبروں میں کی گئی اور دوسری صبح ایک نئے انداز سے جنگ کی ابتداء ہوئی۔
اگلی صبح ینگ چری کماندار نے نئی حکمت عملی ترتیب دی اور اپنی فوج کو بڑے سے گھیرے میں حلقہ بناتے ہوئے آگے بڑھتے رہنے کا حکم دیا۔ عثمانی فوج گھیرا بنا کر آگے بڑھتی گئی اور غیر محسوس انداز میں صلیبی ان کے دائرے میں آتے چلے گئے۔ دائرہ اتنا وسیع تھا کہ جان ہنی ڈیزیا کو معلوم ہی نہیں ہوا کہ وہ عثمانیوں کے نرغے میں آچکا ہے۔ اب عثمانی کماندار نے اپنی فوج کو گھیرا تنگ کرنے کا حکم دیا اور عثمانی فوج اندر کی جانب سکڑتی چلی گئی۔ صلیبی اس ترکیب سے اپنے آپ کو نکالنے کی جستجو میں تھے کہ پیچھے سے شاہِ قسطنطنیہ کی جانب سے بھیجے گئے خاص دستے نے مداخلت کی اور عثمانی فوج پر بھرپور حملہ کیا۔ یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ عثمانی فوج بوکھلا گئی مگر اس سے پہلے کہ عثمانی پسپا ہوتے انہیں اپنے عقب سے گرد و غبار دکھائی دیا۔ نعرۂ تکبیر بلند کرتا سلطان مراد کا بھتیجا رحمت کا فرشتہ بن کر ان کی مدد کو پہنچ چکا تھا۔ اس کی تلواروں نے سب سے پہلے قسطنطین کے سورماؤں کو ڈھیر کیا اور پھر مشترکہ صلیبی افواج کو اپنی تلواروں کی دھار دکھانی شروع کی۔ ابھی معرکہ گرم ہی تھا کہ سلطنت عثمانی کا لال پرچم لیے سلطانی جاہ و جلال اور شانِ فتح مندی کے ساتھ سلطان مراد خان ثانی بنفس نفیس میدانِ جنگ میں نمودار ہوا۔ سلطان نے اپنے آپ کو میدان کے عقب میں ایک پہاڑ کی گھاٹی میں چھپا رکھا تھا اور انتہائی قریبی مگر انتہائی دشوار گزار راستے سے گزرکر ایک دن قبل ہی اپنے خاص دستے کے ساتھ وہ وہاں موجود تھا۔
سلطان کی آمد کا غلغلہ بلند ہوا تو جان ہنی ڈیزیا کی جیسے جان نکل گئی۔ صلیبی فوج میں صفِ ماتم بچھ چکی تھی۔ طویل جنگ کا خواب دیکھنے اور عثمانیوں کو گھیر کر مارنے کا منصوبہ بنانے والوں کو اپنی جان کے لالے پڑ چکے تھے۔ سلطان کا بھتیجا شاہِ قسطنطنیہ کی سپاہ کو کچھ دیر پہلے ہی جہنم کے دروازے پر پہنچا چکا تھا۔ باقی بچ جانے والے دوزخی، سلطان مراد کے رحم و کرم پر تھے۔ اس رات جنگ تو رکی مگر صلیبی افواج کے گرد گھیرا جاری رہا ، یوں سمجھیں کہ کسی کو میدان چھوڑ کر اپنی کمین گاہ میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ رات آنکھوں میں کاٹی۔ سپاہیوں کی لاشیں بھی نہ اٹھائی جا سکیں۔ صرف تلواروں کی دھاریں تیز ہورہی تھیں یا سلطان کی اللہ کے حضور مناجات و فریاد کی آواز تھی۔ اگلے دن کوئی بہت بڑا معرکہ نہیں تھا، صرف حتمی کارروائی عمل میں آنی تھی۔ سر قلم کرنے کی روایات کی تجدید کا دن تھا۔ سلطان نے آگے بڑھ کر جان ہنی ڈیزیا کی گردن اپنی تلوار سے قلم کی جو اس بات کا اعلان تھا کہ صلیبی یہ جنگ ہار چکے ہیں۔ جنگ کا فیصلہ تیسرے دن دوپہر ہونے سے بہت پہلے ہوچکا تھا۔ نمازِ ظہر کے ساتھ ہی عثمانی سپاہیوں کی نمازِ جنازہ اور تدفین کا عمل ہوا، جس کے بعد نمازِ شکرانہ ادا کی گئی۔ اس طرح کوسوو کی زمین بھی عثمانی سلطنت میں شامل ہوگئی۔
(جاری ہے )