حیا کی قیمت

211

رضوانہ قائد
’’امی ! میری کاپی اسکول میں رہ گئی ہے۔۔۔اور کل ٹیسٹ ہے۔۔۔ میں کچھ ضروری کام اپنی دوست کی کاپی سے واٹس ایپ کرلوں۔۔۔؟‘‘ یہ کہتے ہی ہماری دس سالہ صاحبزادی نے ہمارا فون استعمال کی غرض سے ہاتھ میں لے لیا۔ فوری طور پر تو مجھے اس جسارت پر غصہ آیا۔۔۔کہ اس عمر کی پڑھائی بھی اب واٹس ایپ کی محتاج ہوگئی۔۔۔ مگر پھر مجبوری سمجھ کر۔۔۔ان کی دوست کے بارے میں سرسری معلومات لے کر نمبر ایڈ کرنے کی اجازت دے دی اور ساتھ ہی کام ختم ہوتے ہی فون کا استعمال بھی ختم کرنے کی تاکید کردی۔
اینڈروئیڈ فون کے استعمال کے ساتھ ہی احتیاط کے باوجود بھی‘ ضرورت کے بہانے انٹرنیٹ اور اس کے لوازمات۔۔۔ فیس بک‘ واٹس ایپ‘ ای میل وغیرہ چیک کرنے کا مرض بھی لگ جاتا ہے‘ سو اس مرض کے ہاتھوں چند گھنٹوں بعد جب فون کھولا اور حسبِ معمول فیملی گروپ کی اپ ڈیٹس چیک کرنا چاہا تو خلافِ معمول نوٹیفیکیشن رُکنے میں ہی نہ آئیں۔۔۔ ایک دم پریشانی سی ہوگئی کہ آخر چند گھنٹوں میں دنیا میں ایسی کیا تبدیلیاں رونما ہوگئیں کہ پیغامات کی اطلاعی گھنٹیاں ختم ہونے میں ہی نہیں آرہیں حالانکہ ہمارے رابطے کے نمبر بھی محدود ہیں اور گروپس بھی اِکا دُکا۔۔۔ اور پیغامات بھی اتنے دورانیے میں چار‘ چھ سے لے کر بیس‘ پچیس تک ہی ہوتے ہیں وہ بھی اس صورت میں کہ گروپ کے ممبرز سو ڈیڑھ سو تک ہوتے ہیں۔
مگر آج پیغامات تین سو تک پہنچ رہے تھے۔ بہر حال نوٹیفیکیشن کا ننھا ہنگامہ تھمنے پر غور کیا تو ایک واٹس ایپ گروپ کا اضافہ دکھائی دیا۔ خوبصورت سی پروفائل تصویر کے ساتھ۔۔۔ سمجھ میں تو آہی گیا کہ یہ چند گھنٹے قبل کی سرگرمی کا نتیجہ ہے۔۔۔مگر یہ حیرت ہوئی کہ ایک بچی کو ایڈ کرنے کی اجازت مانگی گئی تھی۔۔۔ اور یہ چھ عدد کیسے وارد ہوگئیں بلا اجازت وہ بھی اجتماعی طور پر۔۔۔؟ تو انتہائی معصومانہ بلکہ قابلِِ رحم شکل بنا کر فرمایا گیا ’’میری وہ دوست گروپ میں تھی۔۔۔ تو اس نے مجھے بھی اسی گروپ میں ایڈ کردیا اور ہم سب دوست ہیں۔‘‘
ہم اگر چہ ان کو نہیں جانتے تھے۔۔۔ مگر یہ سوچ کر کہ اتنی ننھی سی بچیاں ہی تو ہیں۔۔۔وہ بھی اچھے اسکول سے ہیں۔۔۔تو یقیناً اچھے گھرانوں سے ہی ہوں گی۔۔۔ ہم نے اپنا اعتراض واپس لے لیا اور صرف وقتِ ضرورت استعمال کرنے کی اجازت دی اور دل میں خود نظر رکھنے کا طے کرلیا۔۔۔ پھر مشاہدے کی غرض سے گروپ کھولا کہ آخر چھ بچیوں نے ایسی کیا باتیں کر لیں کہ اسکور تین سو تک پہنچ گیا۔۔۔ ایک۔۔۔دو۔۔۔تین۔۔۔ اور پھر انگلی کی تیزرفتار جنبش سے آخری میسج تک چند ایک میسج پڑھے بھی جو کہ عمومی سے تھے‘ آپس کی معمول کی سرگرمیوں سے متعلق۔۔۔ مگر ان میں قابلِ غور بات بچیوں کی ذاتی تصاویر/سیلفیاں تھیں جو انہوں نے دوستی کے نام پر آپس میں شیئر کی تھیں اور اس سے بھی زیادہ قابلِ فکر بات تصویروں میں ان کے دل رُبا انداز جسم اور بالوں کے اسٹائل۔۔۔اور چہروں کے تاثرات۔۔۔ اگرچہ یہ سب بہت ہی معصومیت کے ساتھ تھا شائد اس لیے کہ یہ عمریں بھی معصوم ہی تھیں۔۔۔ فقط دس گیارہ سال۔۔۔ جس میں بصارت تو خوب ہوتی ہے کہ ہم ہی سب سے اچھے لگیں۔۔۔مگر بصیرت ندارد۔۔۔کہ کیسے اچھے لگیں۔۔۔؟
یہ بصیرت‘ جس کو ہماری ماؤں نے زندگی کے ایسے ہی معصوم ونازک دور میں ’’حیا‘‘ کے عنوان سے نہ صرف ہماری سیرت وکردار کا حصہ بنایا تھا۔۔۔ بلکہ مرتے دم تک اس کو فرضِ عین سمجھتے ہوئے ادا بھی کیا۔۔۔ حیاتِ انسانی کاچکر آج یہ ننھی ننھی کونپلیں ہماری جگہ ہیں۔۔۔ چند برسوں ہی کی بات ہے‘ مگر بصارت اور بصیرت کے درمیان اتنی وسیع خلیج ۔۔۔!! سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ رہے ہیں‘ جو چاہتے ہیں وہ بھی اور جو نہیں چاہتے وہ بھی۔۔۔ زمانے کی دوڑ میں وہ بصیرت ہی گم کر بیٹھے جو رب کی مطلوب چاہت اور عدم چاہت میں فرق کرسکے۔۔۔ مصروفیات کا دائرہ اتنا وسیع کرلیا کہ ننھے شگوفوں کو سایہ دار درخت بنانے کے لیے مالی کا فرض ادا کرنے کے بجائے معاشرے کے جنگل میں انہیں جھاڑ جھنکاڑ اور کانٹوں کے درمیان بڑھنے کے لیے چھوڑ دیا۔ معاشرے کے اس جنگل میں سب سے زیادہ تکلیف دہ جھاڑ جھنکاڑ۔۔۔میڈیا اور انٹرنیٹ تکلیف دہ راستے سے گزرتے ہوئے کپڑے سمیٹ کر چلنے والے زندگی کے ٹیڑھے میڑھے راستوں پر اطراف کے کانٹوں سے دامن بچانے کی فکر سے غافل ہورہے ہیں۔۔۔ ڈرامے‘ کارٹون‘ اشتہارات۔۔۔ اور اس دوڑ میں سب سے آگے انٹرنیٹ اور اس کے لوازمات‘ فیس‘ بک واٹس ایپ‘ زندگی کی ترجیحات بن گئیں۔ کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کی حد تک تو بچے پھر بھی ذرا روک ٹوک میں نظر آتے تھے گھر میں کمپیوٹر کے استعمال کے لیے بہن بھائیوں کے اوقات مقرر ہوا کرتے تھے‘ مگر اب جب کہ ہر دوسری ماں اور باپ کے ہاتھوں میں دن رات اسمارٹ فونز ہیں‘ والدین سے زیادہ بچے کس تیزی سے اس کے عادی ہورہے ہیں‘ والدین کو اس کا اندازہ پانی سر سے اونچا ہونے کے بعد ہی ہوتا ہے۔
ایک وقت تھا کہ ٹی وی‘ کمپیوٹر‘ فون کے لیے گھرمیں نمایاں مقام مقرر ہوتے تھے‘ اب ان تینوں کا مرقع اسمارٹ فون ہر ایک کی دسترس میں ہے۔ والدین کو اندازہ نہیں کہ بچے یہ فون کتنا اور کیسے استعمال کررہے ہیں؟ اس کا ایک ثبوت تو تیزی سے بڑھتے ہوئے آن لائن رابطے‘ دوسری جانب ان رابطوں کے ذریعے بچے لائک کمنٹ اور شیئرنگ کے ذریعے کیا کچھ کررہے ہیں؟ والدین کے لیے سر درد ہے۔ لہٰذا یا تو بچوں کی نام نہاد تربیت پر اعتبار کر لیا جاتا ہے یا پھر انہیں بولڈ اور بااعتماد گردان کر چشم پوشی اختیار کرلی جاتی ہے۔ بچے تو ایک طرف ننھی عمر سے خود کو منوانے کا شوق عموماً بچیوں میں ہی زیادہ ہوتا ہے۔ آزاد خیال گھرانوں کا تو تذکرہ ہی کیا۔۔۔ عام معاشرے کی معصوم ننھی بچیاں انڈین اداکاراؤں کے سے بے باک انداز میں اسمارٹ فونز کی اسکرینوں پر ایک جنبش سے کہاں سے کہاں شیئر ہوجاتی ہیں۔۔۔ کتنی ہی دوستوں کے بھائیوں اور باپوں کی نظر بازی کا سامان ہوجاتا ہے۔۔۔ مگر سفید پوش والدین ہیں کہ جذبۂ ایمانی میں خلل تک محسوس نہیں کرتے۔ ہم نے ہر خوشی غمی کو تصویر بازی سے مشروط کر لیا ہے۔ یہ تصویر بازی کی ہوس ہماری ننھی ترین بچیوں کی حیا کو کس باریک بینی سے بے حیائی میں تبدیل کررہی ہے…ہماری اس بے خبری قیمت کیا ہو گی۔۔۔؟
حدیثِ نبوی ؐ ہے’’حیا اور ایمان ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے ہیں‘ جب ان میں سے ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا خودبخود اٹھ جاتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ)
آج اسی قیمت کی ادائیگی ہمارے ننھے بچوں اور بچیوں کے ایمان کی صورت میں ہورہی ہے۔ کیا حیا کی یہ قیمت۔۔۔گھاٹے کا یہ سودا ہمیں اپنی بچیوں اور ان کی جنتوں سے زیادہ عزیز ہے…؟؟؟