حمیرا بنتِ فرید
’’پاپا تو مجھ سے پیار ہی نہیں کرتے‘‘۔ آٹھ سالہ عینا کے کہنے پر میں چونک گئی۔
’’کیوں بیٹا! آپ نے ایسی بات کیوں کہی؟‘‘ میں نے جاننا چاہا۔
’’پاپا نے وعدہ کیا تھا کہ وہ آج مجھے ضرور Doll House دلوانے لے کر جائیں گے لیکن وہ ابھی تک آفس سے نہیں آئے ہیں‘‘۔ عینا نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
’’بیٹا! آفس میں کوئی ضروری کام ہوگا، یا ہوسکتا ہے ٹریفک جام میں پھنس گئے ہوں۔ جب وعدہ کیا تھا تو آنا ہی تھا ناں‘‘۔ میں نے عینا کو بانہوں میں بھر کر پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
ننھے سے دماغ میں ایسی باتیں بیٹھ جائیں تو پھر ان کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ معصوم ذہن لاتعلق باتوں کی کڑیاں آپس میں ملا کر اس کو ایک خیالی شکل دے دیتے ہیں جو آخرکار حقیقت کا روپ دھار کر یقین کی کیفیت اختیار کرلیتی ہے۔ راشد اس دن خاصی دیر سے گھر آئے۔ آفس میں آڈٹ کی وجہ سے پھنسے ہوئے تھے۔ بچے جب تک سوچکے تھے۔ کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر جب وہ کمرے میں آکر لیٹے تو میں نے اُن کو عینا سے کیا ہوا وعدہ یاد دلایا۔
’’ہاں ان شاء اللہ کل لے جاؤں گا۔۔۔ آج تو بالکل فرصت نہیں تھی۔‘‘
’’لیکن آپ کم از کم فون کرکے اپنی مصروفیت کا بتا دیتے۔۔۔ بچے تو امید لگائے ہوئے ہوتے ہیں، ان کو اس طرح بہت مایوسی ہوتی ہے‘‘۔ میں نے انہیں احساس دلایا۔
’’ارے بچے ہی تو ہیں، جب ان کی پسند کی چیز ان کو حاصل ہوجائے گی تو سب گلے شکوے دور ہوجائیں گے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ کروٹ لے کر سوگئے۔ میں سوچنے لگی کیا واقعی بچے بھول جاتے ہیں؟ بظاہر ایسا لگتا ہے، لیکن ان کے لاشعور میں یہ باتیں بیٹھ جاتی ہیں۔ میرا ذہن ماضی میں اپنے بچپن میں کھونے لگا۔ میرے بابا ویسے تو بچوں کا بہت خیال رکھتے تھے لیکن نہ جانے کیوں مجھے یہ احساس رہتا کہ وہ ہم سے پیار نہیں کرتے۔
مجھے یاد ہے میں بہت چھوٹی سی تھی، میں پڑوسیوں کے یہاں سے ایک کھلونا بھالو، جو مجھے بہت بھایا تھا، اپنے ساتھ گھر لے آئی تھی۔ جب بابا کو پتا چلا کہ ایسا میں نے ان کی اجازت کے بغیر کیا ہے تو انہوں نے مجھے مجبور کیا کہ میں فوراً اسے واپس کرکے آؤں اور انہیں سوری بھی بولوں۔ امی نے کہا بھی کہ ابھی بچی ہے، لیکن بابا نے ایک نہ سنی اور مجھے واپس جانا ہی پڑا۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب کلاس میں اوّل آنے کی خوشی میں، مَیں نے اپنے دوستوں کی پارٹی کی۔ سب مجھے مبارک باد دیتے رہے۔ امی نے تو کئی بار میرا ماتھا چوما اور گلے بھی لگایا، لیکن بابا اِدھر اُدھر کام ہی نمٹاتے رہے۔ کبھی میز کرسی کی سیٹنگ، کبھی کھانے کے انتظام کا جائزہ، یا کبھی سب کی تصاویر بناتے رہے۔ امی کے ساتھ میری کئی تصویریں تھیں لیکن بابا تو کسی بھی تصویر میں نظر نہ آئے۔ میری اسکول کی سہیلیاں جانتی ہی نہ تھیں کہ میرے بابا دیکھنے میں کیسے لگتے ہیں۔
میرے بچپن کی یادوں میں، ایک بار میرے بہت ضد کرنے پر بابا کا میرے لیے سائیکل لانا تھا، لیکن بہت کوشش کے باوجود میں اسے چلانا سیکھ نہیں پا رہی تھی۔ جب بھی کوشش کرتی، گرنے لگتی۔ امی جلدی سے مجھے تھام لیتیں۔ اس دن بھی جب میں سائیکل سے گرنے لگی تو بابا نے امی کو مجھے پکڑنے سے منع کردیا اور میں زور سے نیچے گری۔ مجھے بابا پر بے انتہا غصہ آیا تھا۔ غصے ہی میں دوبارہ سائیکل پر سوار ہوکر میں نے جوش میں آکر پیڈل پر پاؤں مارے اور سائیکل دوڑا دی۔ میرے غصے کا بابا پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ دور کھڑے مسکراتے ہوئے مجھے سائیکل چلاتے دیکھتے رہے۔
جس دن میں نے پہلی بار کھیر پکائی تو امی خوشی سے نہال ہورہی تھی۔ بابا نے سب سے پہلے کھیر نکال کر کھائی لیکن مجال ہے جو کوئی تعریف کی ہو۔ بس یہی کہا کہ ’’آئندہ شکر کم ڈالنا۔‘‘
یہ باتیں میں آج سوچتی ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ بابا تو ہمارا ہی خیال رکھ رہے ہوتے تھے، پر اُس وقت کچے ذہن میں تو یہی بات بیٹھی تھی کہ بابا اتنا پیار نہیں کرتے جتنا کہ امی کرتی ہیں۔ پیار بھی تو اظہار چاہتا ہے اور یہی بات میں راشد کو سمجھانے کی کوشش کررہی تھی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میرے بچوں کے ذہن میں اپنے باپ کے لیے ایسے خیالات آئیں جیسے میرے، بچپن میں، اپنے مشفق باپ کے لیے تھے۔
۔۔۔*۔۔۔
نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ میرا ذہن ماضی میں ہی بھٹک رہا تھا۔ بچپن سے اب جوانی میں قدم رکھ دیا تھا۔ بابا کا رویہ ویسا ہی تھا۔ انہیں تو بس پابندیاں ہی لگانی آتی تھیں۔ یہاں نہیں جانا۔۔۔ وہاں نہیں جانا۔۔۔ ہر وقت کی پوچھ گچھ۔ کتنے بجے گھر لوٹو گی۔۔۔ دیر نہیں لگانا۔۔۔ ہر وقت کی نصحیتیں ان میں اور ہم میں فاصلہ پیدا کردیتیں۔
میرا لاہور کے میڈیکل کالج میں داخلہ ہوگیا تھا۔ شروع شروع میں تو گھر سے دور بہت اداس اداس رہتی۔ اکثر امی کا ہی فون آجاتا تھا۔ جب میں گھر فون کرتی اور بابا اٹھاتے تو ایسا محسوس ہوتا تھاکہ وہ کچھ بات کہنا چاہ رہے ہیں لیکن فوراً ہی کہہ دیتے کہ میں تمہاری امی کو بلاتا ہوں۔ اُس وقت دل چاہتا بابا کچھ تو پوچھیں میرے بارے میں، تعلیم کے بارے میں۔ اُس وقت تو میں یہی سوچتی تھی کہ بابا تو بس کالج کی فیس کا چیک بھجوا کر سمجھتے ہیں کہ ان کی ذمے داری پوری ہوگئی، اس کے علاوہ تو انہیں ہم سے کوئی دلچسپی ہی نہیں۔ اس بات کا احساس تو اب ہوتا ہے کہ اگر وہی اخراجات پورے نہ کرتے تو تعلیم کیسے حاصل ہوتی! لیکن کاش وہ اپنی اس محبت اور توجہ کا کچھ تو احساس دلاتے۔ یہ ’’کاش‘‘ آج ایک کانٹا بن کر دل میں چبھتا ہے، کیونکہ آج بابا تو دنیا میں نہیں جو ہم اُن کی اتنی خدمتوں کا بدلہ اتار سکتے۔ ہم ساری زندگی اُن کے لیے بدگمانی کا شکار رہے۔ ان کی مہربانیوں کا کچھ بھی تو صلہ انہیں نہ دے سکے۔
۔۔۔*۔۔۔
میں بے چینی سے بستر پر کروٹیں بدلنے لگی۔ میرے بچوں کی زندگی میں یہ ’’کاش‘‘ نہیں آنا چاہیے۔ راشد کو بچوں سے محبت کا اظہار سیکھنا ہوگا اور بچوں کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ صبح سے شام تک باپ انہی کی خاطر مصروف رہتا ہے، انہی کی خوشیاں خریدنے ان سے دور جاتا ہے، لیکن۔۔۔ لیکن انجانے میں ان سے بہت دور چلا جاتا ہے۔
۔۔۔*۔۔۔
میری رخصتی والے دن امی بہت روئی تھیں۔ میری بڑی خواہش تھی کہ آج تو بابا میرے سر پر ہاتھ رکھیں، مجھے سینے سے لگا کر کچھ نصیحت ہی کریں، بہت سی دعائیں دیں۔ لیکن وہ تو بس زور سے ناک سنکتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے تھے، اور یوں میں باپ کے خلاف دل میں کدورتیں لیے اُس گھر سے رخصت ہوگئی۔ اپنی نئی زندگی میں گم ہوکر ان کی یاد بھی کم آتی تھی۔ جب گھر جاتی تو امی سے ڈھیروں باتیں کرتی، کھانے کی میز پر بھی سسرال کے طور طریقے یا امی سے کھانوں کی ترکیبیں پوچھتی رہتی۔ بابا مسکرا مسکرا کر ہماری باتیں سنتے رہتے۔ ان سے تو بس سلام دعا ہی ہوتی۔ وہ راشد کی یا میرے سسر کی خیریت ہی معلوم کرتے۔
وقت بیتتا رہا، بابا بہت کمزور اور پہلے سے بہت بوڑھے نظر آنے لگے تھے۔ میں سسرال میں تھی جب بابا کے ہارٹ اٹیک کی خبر آئی۔ دل ایک دم بیٹھنے لگا۔ راشد کے ساتھ اسپتال پہنچی۔ بابا کی حالت ٹھیک نہ تھی۔ میں دور کھڑی انہیں دیکھ رہی تھی۔ انہوں نے اشارے سے مجھے پاس بلایا۔ ان کی نظروں میں مجھے وہ محبت نظر آئی جس کو میں ساری زندگی ترستی رہی یا شاید یہ محبت میں نے آج محسوس کی۔ میرا ان کو چھوڑ کر جانے کو بالکل دل نہیں کررہا تھا۔ ان کو آئی سی یو میں منتقل کردیا گیا تھا۔ دو دن کی مختصر علالت کے بعد وہ خاموشی اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔
۔۔۔*۔۔۔
جب تک بابا زندہ تھے، ان کی خاموش محبت کا احساس ہی نہ ہوا۔ جب وہ ہم سے بہت دور چلے گئے تو یہ محبت عیاں ہونے لگی۔ آج جب کبھی سوچنے بیٹھتی ہوں تو بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں۔ آج عینا کے دکھ بھرے لہجے ’’بابا تو مجھ سے پیار ہی نہیں کرتے‘‘ نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ میں اپنے بچوں کو اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہونے دوں گی۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ باپ کے دل میں اپنے بچوں کے لیے پیار نہ ہو؟ ایک تھوڑا سا اظہار انہیں ساری زندگی کی محرومی سے بچا سکتا ہے۔ ان کی زندگی ہی میں ان کی قدر کرا سکتا ہے تاکہ کسی کے دل میں بھی کوئی حسرت نہ رہے۔ راشد کو ایک آئیڈیل باپ بنانا اب میری ذمے داری تھی۔