دل پسند چیز

234

آمنہ ناز

میرا رنگ سفید اور کالا تھا۔ میرا قد لمبا تھا اور میری صحت بھی قابلِ رشک تھی۔ گویا کہ میں خاصا خوبصورت تھا اور اس بات کا مجھے پورا پورا یقین تھا۔ اسی لیے میں دوسروں کو گھاس کم ڈالتا تھا۔ ویسے تو گھاس ڈالنے کا کام سکندر صاحب کا تھا، میرے ساتھ راجا بھی رہتا تھا، اسے مارنے کا ایک بھی موقع میں نے کبھی نہیں گنوایا۔ پتا نہیں اس کا نام راجا کیسے پڑا، مجھے تو وہ کہیں کا گنگو تیلی لگتا تھا۔ ہم دونوں سکندر صاحب کے گھر میں یعنی ان کے صحن میں رہتے تھے اور سکندر صاحب کا چھوٹا بیٹا ببلو مجھے بہت چاہتا تھا۔ اسکول سے آنے کے بعد سارا وقت وہ میرے ساتھ کھیلنے میں گزار دیتا۔ آج بھی وہ اسکول سے آتے ہی حسب معمول میرے پاس کھڑا ہوگیا۔ ارے یہ کیا؟ میں نے دیکھا کہ اُس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو تھے اور وہ بہت بری طرح سے رو رہا تھا۔ میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا کہ اچانک وہ مجھ سے لپٹ کر اور زور زور سے رونے لگا۔ ببلو کو اس طرح روتا دیکھ کر مجھے بھی بہت دکھ ہورہا تھا۔ ببلو کی آواز سن کر شائستہ بیگم بھی باہر آگئیں۔ پھر وہ اسے پیار کرتے ہوئے ایک طرف لے گئیں۔ وہ اسے دھیرے دھیرے کچھ سمجھا رہی تھیں۔ اتنے میں سکندر صاحب بھی آگئے اور کچھ ہی دیر میں وہ مجھے گھر سے باہر لے جانے لگے۔ ابھی میں دروازے تک ہی پہنچا تھا کہ ببلو پھر سے آکے مجھ سے لپٹ گیا اور شائستہ بیگم اسے مجھ سے دور لے گئیں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ببلو بار بار مجھ سے لپٹ کر کیوں رو رہا تھا اور سکندر صاحب مجھے اکیلے اس طرح کہاں لے جارہے تھے! کیونکہ وہ مجھے اور راجا کو ایک ساتھ ہی لے کے جاتے تھے تو پھر آج مجھے اکیلا کیوں؟ یہ سوچتے سوچتے جب میں نے گردن اوپر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ اتنے سارے بکرے اور ان کو سجانے کی اتنی خوبصورت خوبصورت سی چیزیں ہیں جنہیں دیکھ کر میں ببلو اور ان سارے سوالوں کو بھول گیا تھا جو تھوڑی دیر پہلے میرے ذہن میں گردش کررہے تھے۔ میں نے جب چاروں طرف نظریں گھمائیں تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سے بڑھ کر ایک بکرے۔ مجھے بہت ہی اچھا لگ رہا تھا۔ میں نے سوچا گھر جاکر راجا کو بتاکر خوب جلاؤں گا کہ وہ ایسی جگہ دیکھنے سے محروم رہ گیا۔ میں من ہی من بہت خوش ہورہا تھا۔ سکندر صاحب نے چند لوگوں سے بات چیت کی اور مجھے لے کے ایک جگہ کھڑے ہوگئے۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ سکندر صاحب میری رسّی چھوڑ دیں تو میں چاروں طرف گھومتا پھروں۔ پھر سکندر صاحب نے قریب ہی ایک دکان سے پھول خرید کر مجھے سجا دیا۔ اب تو میں اور بھی خوش ہورہا تھا اور اکڑ کر کھڑا ہوگیا، اور بار بار اپنے گلے میں پہنے ہوئے ہار کو دیکھ کر میں بہت خوش ہو رہا تھا۔ ’’او ہو! اسے دیکھو ذرا کتنا خوش ہو رہا ہے، اس بیچارے کو تو معلوم ہی نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ ہا ہا ہا!‘‘ یہ آواز میرے پیچھے سے آرہی تھی۔ میں نے مڑ کے دیکھا تو وہاں ایک آدمی کے ساتھ دو بکرے کھڑے تھے، میلے کچیلے سے، شاید ہی کبھی نہائے ہوں گے۔ ’’کیا مطلب ہے تم لوگوں کا، میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’انجان تو ایسے بن رہا ہے جیسے اسے کچھ معلوم ہی نہ ہو‘‘۔ ان میں سے ایک نے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔ ’’سچ میں مجھے کچھ بھی معلوم نہیں ہے، اگر تم لوگ بتادو تو تمہاری بڑی مہربانی ہوگی یار‘‘۔ میں نے منتیں کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا۔ ’’تو سنو، اب تم کبھی بھی گھر واپس نہیں جا سکو گے۔ کیونکہ تم کافی تندرست اور خوبصورت بھی ہو، اس لیے آج تو تمہارا سودا پکا، اور پھر یہ جو تمہارا مالک ہے ناں، یہ تمہیں بیچ کر بہت سی رقم لے کر اپنے گھر کو روانہ ہوجائے گا اور پھر جو تمہیں خریدیں گے ناں، ٹھیک دو دن بعد بقرعید پر تمہیں ذبح کردیں گے۔ ہا ہا ہا!‘‘ ان دونوں کی ہنسی مجھے زہر لگ رہی تھی۔ لیکن ان کی باتیں سن کر مجھے دکھ بھی بہت ہورہا تھا، اب مجھے سمجھ میں آیا کہ ببلو مجھ سے بچھڑتے وقت کیوں رو رہا تھا، مجھے بھی اس کی بہت یاد آرہی تھی۔ ببلو کی یادوں میں اچانک چونکا جب کسی نامانوس ہاتھ نے میری پیٹھ تھپتھپائی۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو کچھ آدمی کھڑے سکندر صاحب کے ساتھ بحث کررہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں ان کی بحث ختم ہوگئی اور سکندر صاحب بہت سے پیسے لے کر وہاں سے چلتے بنے۔ اب مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ یہ لوگ مجھے لے جاکے زندہ کاٹ دیں گے۔ سارے راستے میں یہی سوچتا رہا، کہ اچانک گاڑی ایک جگہ پہ آ کے رک گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اتنے سارے لوگ میرے اردگرد کھڑے مجھے دیکھ رہے تھے لیکن کوئی میرے پاس نہیں آرہا تھا۔ پھر اچانک ایک بچہ میرے پاس آیا، تھوڑی دیر کے لیے مجھے ایسا لگا کہ وہ میرا ببلو ہے۔ ’’بیٹا فہد! کیسا لگا بکرا؟‘‘ ’’بہت پیارا ہے بکرا بابا!‘‘ لیکن نہیں، وہ تو فہد تھا۔ اتنے سارے لوگوں کے درمیان مجھے وہی اچھا لگ رہا تھا اور شاید وہ بھی مجھے پسند کرنے لگا تھا۔ فہد میرے ساتھ کھیلتا، مجھے کھانا کھلاتا، مجھے نہلاتا، بلکہ اپنا سارا وقت وہ میرے ساتھ ہی گزارتا۔ مجھے بھی اس کے ساتھ بہت اچھا لگتا تھا۔ اس کے ساتھ رہ کر میں اپنے تمام دکھ درد اور ڈر بھلا چکا تھا۔ لیکن میرے بھلا دینے سے کیا ہوتا ہے! آخر وہ دن آہی گیا۔۔۔ میری قربانی کا دن۔ ’’بابا! اسے ذبح نہ کریں یہ تو میرا دوست ہے ناں، میں اس سے پیار کرتا ہوں بابا! پلیز بابا!‘‘ جتنا دکھ فہد کو ہورہا تھا میرے دور جانے کا، اتنا ہی مجھے بھی ہورہا تھا اس سے دور جانے کا۔ میرا تو جی چاہ رہا تھا کہ ابھی یہاں سے بھاگ جاؤں اور بقرعید ختم ہونے کے بعد آؤں، لیکن کیسے جاتا! کم سے کم دس پندرہ لوگوں نے مجھے پکڑ رکھا تھا۔ ’’بیٹا آپ کو پتا ہے حضرت ابراہیمؑ کو اللہ تعالیٰ نے ان کی سب سے ہردلعزیز شے ان کا بیٹا قربان کرنے کا حکم دیا تھا۔ جب انہوں نے اسمعیلؑ سے اس بابت پوچھا تو بیٹے کی فرمانبرداری دیکھو کہ اس نے کہا: اے میرے پیارے ابا جان! آپ وہ کر ڈالیے جس کا آپ کو اللہ نے حکم دیا ہے۔ پس حضرت ابراہیمؑ نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر کہ کہیں بیٹے کی محبت انہیں اللہ کے حکم کی تعمیل سے نہ روک دے، چھری چلا دی۔ جب پٹی کھولی تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیٹے کی جگہ دنبہ ذبح ہوا ہے اور حضرت اسماعیلؑ دور کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ اللہ کو حضرت ابراہیمؑ کی یہ قربانی اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک کے لیے ہر صاحبِ استطاعت عاقل و بالغ مسلمان پر اس کو واجب کر دیا، قیامت تک کے لیے۔ بیٹے فہد ہمیشہ اپنی دل پسند چیز ہی اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔ تم بھی اپنا یہ بکرا اللہ کی راہ میں دو گے تو تمہیں بہت اجرو ثواب ملے گا‘‘۔ یہ سنتے ہی فہد مجھ سے لپٹ گیا اور مجھے بوسہ دیا۔ پھر مسکراتا ہوا دور جا کھڑا ہوا۔ فہد کے بابا کی باتیں سن کر مجھے بھی اب یہ احساس ہو گیا تھا کہ میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ مجھے اس عظیم مقصد کے لیے چنا گیا ہے۔ مسرور اور مطمئن ہو کر میں ذبح ہونے کے لیے تیار تھا۔