لو جان بیچ کر بھی جو ہنر ملے

397

عدنان دانش

یہ انساں جو امیر بحر و بر ہے
قلم لے لو تو پل میں جانور ہے
انسان کو اس دنیا میں خدا کے نائب اور اشرف المخلوقات کی حیثیت سے بھیجا گیا ہے۔ اللہ رب العزت نے انسان کو بے پناہ خوبیوں، صلاحیتوں اور طاقتوں سے مالامال فرمایا ہے۔ ہر انسان مختلف حوالوں سے ذمے دار ہے اور اپنے دامن میں بہت سے فرائض اور واجبات کی فہرست رکھتا ہے۔ حصولِ علم وہ بنیادی فریضہ ہے جو کسی بھی انسان خصوصاً مسلمان کے لیے لازم ہے۔ دینی امور اور دنیاوی معاملات سے متعلق ٹھوس، پختہ اور جامع علم سے بہرہ مند ہونے سے کسی بھی شخص کی کامرانیوں کا آغاز ہوجاتا ہے، جب کہ اہم موضوعات کے حوالے سے لاعلمی کا شکار رہنا سخت نقصانات کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ علم انسان کو بہترین زندگی گزارنے کے لیے ایک مضبوط اور پائیدار بنیاد فراہم کرتا ہے۔ علم کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ انسان کا جاننا اس کے نہ جاننے سے ہمیشہ کم ہوتا ہے۔ اگر انسان کا جذبہ صادق ہے تو اسے علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی، بلکہ یہ کہنا بجا ہے کہ اگر حصولِ علم کی لگن سچی ہے تو آدمی راہ میں لگے درختوں اور فضاؤں میں اڑتے پرندوں سے بھی علم حاصل کرسکتا ہے۔ علم کے لیے شرط مستقل مزاجی سے آگے بڑھنا ہے۔ فاصلہ طے کروانا اور منزل پہ پہنچانا قدرت کا کام ہے۔
علم انسان کو سمجھ دار بناتا ہے لیکن مشاہدے اور تجربے سے ثابت ہے کہ بہت ممکن ہے ایک آدمی کافی علم رکھتا ہو، لیکن دانش مند نہ ہو۔ دراصل یہ معاملہ زبان کے استعمال سے تعلق رکھتا ہے۔ کثرتِ کلام میں مبتلا رہنا، لایعنی گفتگو کرنا اور غیر ضروری تبصروں میں وقت لگانا علم کے بڑے حصے اور اس کے اثرات کو ضائع کردیتا ہے اور انسان پختہ سمجھ بوجھ کا حامل نہیں بن پاتا۔ حدیثِ مبارکہ میں عمدہ سوال کرنے کی خوبی کو آدھے علم کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ دراصل یہ وصف فضولیات سے پرہیز کرنے اور اکثر اوقات خاموش رہتے ہوئے سماعت اور مطالعے کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے سے پیدا ہوتا ہے۔ کسی بھی انسان کے رتبے کا اندازہ اُس کی کثرتِ علم سے نہیں ہوتا بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ فتنہ انگیز باتوں سے کس طرح اپنا دامن بچاتا ہے۔ علم حاصل کرنے سے انسان کے لیے ذمے داریوں کی ادائیگی کی راہ کھلتی ہے اور عمل کرنے سے اس کا مقام و مرتبہ بلند ہوتا ہے۔ حصولِ علم درحقیقت ایک کُل وقتی اور ہمہ جہتی کام ہے۔ سچا طالب علم سیکھنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ کتاب و قلم کے ساتھ مضبوط تعلق اسے ہر دم متحرک رکھتا ہے۔ حصولِ علم کی لگاتار کوششوں سے اس کے دل و دماغ علم کے نور سے منور رہتے ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ گناہوں اور لغویات کو چھوڑ دینے اور خوفِ خداوندی کی راہ اپنا لینے سے علم کی بنیادیں انتہائی مستحکم ہوجاتی ہیں۔
حصولِ علم کا عظیم مقصد عمر کی قید سے آزاد ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’بوڑھے طوطے کہاں تک پڑھیں گے!‘‘ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جن لوگوں کو علم کی حقیقی لگن ہوتی ہے، وہ کبھی بوڑھے نہیں ہوتے اور روح کی تازگی و توانائی انہیں ہمیشہ جوان رکھتی ہے۔ گو کہ پختہ عمر میں انسان کی دلچسپیاں اور سرگرمیاں مختلف طرز کی ہوتی ہیں اور اس کی ذمے داریوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوجاتا ہے، لیکن اس کی ذہنی صلاحیتیں بچپن اور نوجوانی کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ قرآن مجید کی رُو سے کوئی بھی مرد چالیس سال کی عمر میں بھرپور جوانی کو پہنچتا ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ بہت سے بزرگ حضرات بہترین دماغی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کی یادداشت میں کوئی فرق نہیں آتا۔ صحت اچھی ہو اور دل و دماغ یکسو ہوں تو انسان مرتے دم تک حصولِ علم کا سلسلہ جاری رکھ سکتا ہے۔ اصل میں ترجیحات کے تعین کی بات ہے۔ مطالعہ، مشاہدہ اور تجربہ عام زندگی میں سیکھنے کے اہم ذرائع ہیں، لیکن جو لوگ مطالعے میں مہارت اور پختگی رکھتے ہیں وہی مشاہدے اور تجربے سے بآسانی درست نتائج اخذ کرپاتے ہیں۔ جو علم صرف اپنی ذات تک محدود رہے، اس کے اثرات دیرپا نہیں ہوتے۔ علم حاصل کرنا، اُس پر عمل کرنا اور اُس کی بھرپور اشاعت کرنا علم کو لازوال بنا دیتا ہے۔ علم کا پانا اگرچہ بہت بڑا عمل ہے لیکن یہ منزل نہیں ہے۔ اس سے راستوں کی نشاندہی ضرور ہوتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’علم جنت کے راستوں کا نشان ہے‘‘۔
لکھنے سے لکھنا آتا ہے، سننے سے بولنا آتا ہے، جب کہ ذخیرۂ الفاظ کا ملنا کثرتِ مطالعہ سے مشروط ہے۔ یقیناًاچھی کتابوں کا مطالعہ دل کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ اکثر اوقات خیالات کی جنگ میں کتابیں ہی ہتھیار ثابت ہوتی ہیں۔ اہلِ علم اور اہلِِ ذوق کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا کسی بھی طالب علم کی زندگی کو علم کی لو سے جگمگا دیتا ہے۔ عقل کی باتیں سیکھنے کے لیے سفید بالوں کا انتظار کرنے کے بجائے سفید بال والوں کی باتیں غور سے سننی چاہئیں۔ ایک دانش مند کا قول ہے کہ کسی باعمل عالم کے ساتھ چند لمحوں کا تبادلۂ خیال دس سال کے مطالعے سے بہتر ہے۔ علم کی لذت دولت کی فرحت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ دولت سے انسان کی ضروریات پوری ہوتی ہیں، جب کہ علم انسان کو دنیا کی ضرورت بنادیتا ہے۔ علم کی بزرگی عبادت کی بزرگی سے بھی بڑھ کر ہے، کیونکہ عبادت انسان اپنے ذاتی اجر و ثواب کی خاطر کرتا ہے جب کہ علم کی بدولت ساری انسانیت فیض یاب ہوتی ہے۔ علم کے بے حد و حساب پھیلے ہوئے اثرات گواہی دیتے ہیں کہ علم زندگی کی ایک مضبوط بنیاد ہے۔
علم انبیاء کی میراث ہے، یہ کسی کی جاگیر نہیں۔ جس پر اللہ کا فضل ہوگا اور جو شخص بھی محنت کرے گا وہ اسے پا لے گا۔ علم میں استحکام اور ذہانت کا عروج جدوجہد سے وابستہ ہے، کیونکہ ذہانت ایک ایسا انمول پودا ہے جو محنت کے بغیر نہیں پھلتا پھولتا۔
نعمتیں انہی افراد کو ملا کرتی ہیں جو نعمتوں کی قدر کرتے ہیں۔ علم قدرت کا قیمتی ترین انعام ہے جو قسمت والوں کو ملتا ہے۔ انسان جس چیز کو تلاش نہیں کرتا وہ چیز اسے نہیں مل پاتی۔ علم کی بیش بہا دولت کا حاصل ہوجانا ادب اور احترام پر منحصر ہے۔ سچے طالب علم کے لیے علم سے متعلق ہر ایک بات انتہائی اہمیت کی حامل بن جاتی ہے۔ کہا گیا ہے کہ کاغذ آلۂ علم ہے۔ اگر راستے میں پڑا نظر آجائے تو علم سے محبت کا تقاضا ہے کہ اسے اٹھاکر محفوظ مقام پر رکھ دیا جائے۔ اس طرح یہ قول بھی ہمیں رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ کتابوں کو زمین پر نہ گرنے دیا کرو کیونکہ کتابیں انسان کو آسمان تک لے جاتی ہیں۔ یقیناًاساتذہ کرام سے محبت رکھنا اور ان کی فرماں برداری اختیار کرنا حصول علم کی قوی اساس ہے۔ کتاب و قلم سے نسبت رکھنے والے ہی علمی فضائل کے حق دار بن پاتے ہیں۔ انسان جس بڑے مقصد سے تعلق رکھتا ہے اس تعلق کے اثرات اس کی پوری زندگی پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ سچا طالب علم کسی بھی موڑ پر علم و ادب اور تعلیم و تدریس سے بے نیاز نہیں ہوتا اور اس کی غیر معمولی لگن ہی اس کی زبردست کامیابی کا اعلان ہوتی ہے۔
علم حاصل کرنا ایک اعتبار سے صبر آزما کام ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حصولِ علم کا جذبہ دراصل ایک مزاج ہے۔ علم کا پیار جس شخص کے دل میں موجزن ہوجائے، وہ سیکھے بِنا بے چین رہتا ہے اور اس کی طلب ہی اسے لذت فراہم کرتی ہے۔ کہنے والے نے کیا خوب کہا کہ:
علم و فن کی اگر آبیاری رہے
دل مچلتا رہے، بے قراری رہے
حدیث مبارکہ میں سیکھنے اور علم کے حصول کے سلسلے کو ماں کی گود سے مرتے دم تک قائم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ انسان کی صلاحیتیں ہمیشہ بڑھتی ہیں اور ترقی کا سفر ہمہ وقت جاری رہتا ہے۔ جاننے کے لیے کسی ایک ذریعے پر انحصار اور اکتفا کرنا مناسب نہیں ہے۔ دانا طالب علم تمام دستیاب اسباب و وسائل بروئے کار لاتے ہوئے تیز رفتاری کے ساتھ قدموں کو بتدریج بڑھاتا ہے اور یہی تسلسل روز افزوں اسے علمی مہارت کا اہل بنا دیتا ہے۔