سید احمد شعیب
اﷲ تعالیٰ نے جب انسان کو تخلیق کیا تو اس نے فرشتوں سے کہا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں۔ سب فرشتے انسان کے آگے سجدے میں گر گئے لیکن شیطان نے انکار کیا اور سجدہ نہیں کیا۔ اﷲ نے پوچھا تُو نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ وہ بولا: میں آگ سے بنا ہوں جو اوپر اٹھتی ہے اور انسان کو تُو نے حقیر مٹی سے بنایا ہے جو نیچے ہوتی ہے۔ میں افضل ہوں، اس پست چیز کو سجدہ کیوں کروں! اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اترجا یہاں سے، تُو نافرمانوں میں شامل ہے۔ اُس دن سے شیطان انسانوں کو بہکانے میں لگ گیا ہے۔ اب جو شیطان کی بات مانتا ہے وہ سجدہ نہیں کرتا، اور جو اﷲ تعالیٰ کو اپنا خالق و مالک جانتا ہے وہ اﷲ کے آگے سجدہ ریز ہوجاتا ہے۔ اب چاہے مسجد ہو، گھر ہو، دکان ہو یا پھر کھیل کا میدان۔۔۔ سجدہ لازمی ہے۔ سجدہ شکر اور اطاعت کی علامت ہے، جبکہ اس سے انکار تکبر اور کفر کی نشانی ہے۔ پاکستان میں سجدے صرف مسجدوں تک محدود ہوگئے ہیں اور کھیل کے میدان ان سے خالی ہوگئے ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب پاکستانی کھلاڑی فتح یا کوئی بڑا ہدف حاصل کرنے کے بعد سجدۂ شکر ادا کرتے تھے تو اﷲ تعالیٰ انہیں مزید کامیابیوں اور شہرت سے نوازتا تھا۔ پاکستانی کھلاڑی ملکی اور بین الاقوامی میدانوں میں ہمیشہ ہی سجدہ ریز ہوتے رہے ہیں۔ چاہے وہ ہاکی کا میدان ہو، کرکٹ کا ہو یا پھر اسکواش کا کورٹ ہو، پاکستانی کھلاڑیوں نے ہمیشہ ہی سجدے کیے ہیں۔ سب سے زیادہ سجدے ہمارے قومی ہیرو جہانگیر خان نے کیے ہیں، کیونکہ وہ 555 مقابلے بغیر کسی شکست کے جیت گئے تھے۔ جہانگیر خان کا طریقہ تھا کہ وہ ہر فتح کے بعد سجدۂ شکر ادا کرتے تھے۔ بہت ہی کم سجدے یونس خان نے کیے ہیں، کیونکہ ان میں تکبر زیادہ ہے۔ جب یونس خان نے کراچی میں 300 رنز مکمل کیے اور گھاس کی طرف بڑھے تو سب کا خیال تھا کہ اب وہ سجدہ کریں گے، لیکن انہوں نے ایسا ہرگز نہیں کیا۔ کمنٹیٹر نے بھی کہا کہ وہ سجدہ کرنے جارہے ہیں، لیکن انہوں نے میدان میں ڈنڈ پیلنا شروع کردیے، یعنی Pushupکرنے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اپنی فٹنس کی وجہ سے ٹرپل سنچری بنا سکے ہیں، اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یونس خان حنیف محمد اور انضمام الحق کے بعد پاکستان کے تیسرے کھلاڑی بن گئے جنہوں نے ٹیسٹ میچ میں300 یا زائد رنز بنائے ہیں ۔ انہوں نے یہ کارنامہ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں 21 فروری 2009ء کو سری لنکا کے خلاف انجام دیا تھا۔ اﷲ کو ان کی یہ ادا پسند نہیں آئی۔ یونس خان جب لٹل ماسٹر حنیف محمد کے سب سے زیادہ 337 رنز سے چند قدم کے فاصلے پر تھے تو آؤٹ ہوگئے۔ نہ تو وہ حنیف محمد کا ایک اننگ میں سب سے زیادہ رنز کا ریکارڈ توڑ سکے اور نہ ہی میچ جتوا سکے۔ نتیجہ ڈرا کی صورت میں نکلا۔ یونس کی ٹرپل سنچری رائیگاں گئی۔
یونس خان پاکستان کے بدقسمت بیٹسمین ہیں جو اپنے کیریئر میں دو بار190کے اسکور پر آؤٹ ہوئے ہیں۔ پہلی مرتبہ جنوری 2006ء میں بھارت کے خلاف 199 رنز بناکر قذافی اسٹیڈیم لاہور میں آؤٹ ہوئے، اور اسی سیریز میں دوسری مرتبہ بھی بھارت کے خلاف اقبال اسٹیڈیم فیصل آباد میں194رنز بناکر آؤٹ ہوئے، ورنہ یونس کی ٹیسٹ میچز میں 8 ڈبل سنچریاں ہوتیں جو پاکستان میں سب سے زیادہ ہوتیں۔ اس وقت جاوید میاں داد اور یونس خان دونوں کی 6، 6 ٹیسٹ ڈبل سنچریاں ہیں جو پاکستان میں سب سے زیادہ ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ ٹیسٹ ڈبل سنچریاں بنانے کا اعزاز آسٹریلین بیٹسمین سرڈان بریڈ مین کو حاصل ہے جن کی تعداد 12ہے۔ جبکہ دوسرے نمبر پر سری لنکا کے مایہ ناز بیٹسمین سنگا کارا ہیں جن کی ڈبل سنچریوں کی تعداد 11ہے۔ تیسرے نمبر پر ویسٹ انڈیز کے برائن لارا ہیں جن کی ڈبل سنچریوں کی تعداد 9 ہے۔
پاکستان کا ابھرتا ہوا کھلاڑی سلمان بٹ تھا جس نے اپنے کیریئر کے پہلے ہی ایک روزہ میچ میں بھارت کے شہر جمشید پور میں سنچری بنا ڈالی اور ثابت کیا کہ وہ ایک باصلاحیت کھلاڑی ہے۔ کیونکہ اکثر پاکستانی بلے باز بھارت جاکر اپنی بیٹنگ ہی بھول جاتے ہیں اور بمشکل ڈبلز فیگر میں جاتے ہیں۔ جبکہ سلمان بٹ اپنی پہلی ہی اننگ میں ٹرپل فیگر میں آگئے۔ بھارت میں سنچری کرنا آسان کام نہیں ہے۔ وہاں مخالفوں میں صرف گیارہ کھلاڑی ہی نہیں ہوتے بلکہ دو ایمپائر اور پچاس ہزار تماشائی بھی ہوتے ہیں۔ ایسے میں سلمان بٹ اپنے اﷲ کو نہیں بھولا اور اپنی پہلی سنچری بنانے کے بعد ہندوؤں کے دیس میں سجدے میں گر گیا۔ اﷲ تعالیٰ نے اسے نہایت عزت اور شہرت دی۔ پاکستان وہ میچ جیت بھی گیا۔ لیکن جب سلمان بٹ نے عزت پر دولت کو فوقیت دی تو اﷲ تعالیٰ نے اسے ذلت اور اسیری دی۔ اگر وہ سجدے کا صحیح مفہوم سمجھ لیتا تو آج بھی شہرت کی معراج پر ہوتا۔
پاکستان کی پرانی ہاکی ٹیم کے بے شمار کھلاڑی، اسکواش کا بے تاج بادشاہ جہانگیر خان، کرکٹ لیجنڈ جاوید میاں داد، فاسٹ بولر عاقب جاوید، سپر اسٹار انضمام الحق، ون ڈے میں پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ اسکور194بنانے والا سعید انور، ایک سال میں سب سے زیادہ 1788رنز بنانے والا ہیرو محمد یوسف۔۔۔ ان تمام اور ان جیسے بے شمار پاکستانی کھلاڑیوں نے دنیا کے تمام میدانوں میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ہمیشہ سجدہ کیا ہے۔ اور دنیا ان کھلاڑیوں کو آج بھی عزت، عظمت اور اعلیٰ مقام دیتی ہے۔ جس جس نے کامیابی کے بعد خود پر بھروسا کیا وہ رفتہ رفتہ اندھیروں میں گم ہوگیا۔
پاکستان ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے کپتان، سب سے سنجیدہ، باوقار، بردبار اور پڑھے لکھے (MBA)، سب کا خیال رکھنے والے کھلاڑی مصباح الحق ہیں، جنہیں ابتدائی سالوں میں پاکستان کرکٹ ٹیم کا حصہ ہی نہیں بننے دیا گیا، لیکن یہ خاموش رہے۔ کبھی کسی کی برائی زبان پر نہیں لائے، نہ ہی اپنے کسی انٹرویو میں کسی کے خلاف کوئی بات کی۔ اﷲ تعالیٰ نے انہیں انہی خوبیوں کی بدولت پاکستان کرکٹ ٹیم کا مستقل حصہ بنادیا، ماں کی دعائیں بھی ان کے ساتھ ہیں۔ پہلے ٹی 20 ورلڈ کپ جو کہ جنوبی افریقہ میں 2007ء میں منعقد ہوا، اس سے پہلے دنیا مصباح کو جانتی تک نہ تھی۔ پہلے ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان کی ناقص بیٹنگ کے باوجود مصباح کی ٹک ٹک اور عمدہ بیٹنگ نے ایک کمزور ٹیم کو فائنل تک پہنچا دیا۔ فائنل پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلا گیا۔ جب پاکستان جیت سے صرف چند قدم دور رہ گیا تھا تو مصباح نے میاں داد کے انداز میں ریورس سوئپ لگا کر چھکا مارنے کی کوشش کی۔ یہ کمزور کوشش ثابت ہوئی اور گیند دبوچ لی گئی۔ اس طرح جیتا ہوا میچ پاکستان کے ہاتھوں سے نکل کر بھارت کے قدموں میں چلا گیا۔ پاکستان کو شکست اور مصباح الحق کو شہرت مل گئی، ورنہ تاریخ میں ہمیشہ پاکستان کا نام پہلے T-20 کی فاتح ٹیم کے طور پر امر ہوجاتا۔
بہت عرصے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم مکمل تیاری کے ساتھ دورۂ برطانیہ کے لیے روانہ ہوئی۔ اِس مرتبہ ٹیم کی جسمانی فٹنس کے لیے فوج کی خدمات لی گئیں۔ ایبٹ آباد جیسے خوشگوار، پہاڑی اور سرد مقام کو کیمپ کے لیے منتخب کیا گیا اور ماہر نفسیات کی مدد سے کھلاڑیوں کی ذہنی استعداد کو بڑھایا گیا تاکہ پاکستان جیت کر ہی واپس آئے۔
تجویز: پاکستان میں جب بھی انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہو ہمیں چاہیے کہ انگلینڈ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسی ٹیموں کو سکھر، جیکب آباد اور لاڑکانہ میں میچ کھلائیں۔ بھارت، سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں کے میچ مری، ایبٹ آباد اور سوات میں کروائے جائیں۔ اﷲ تعالیٰ نے پاکستان کو وسیع و عریض زمین اور چاروں موسم عطا کیے ہیں، ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔ بھارت نے گزشتہ ورلڈ کپ میں پاکستان کا ایک میچ ساحلی شہر میں رکھا تھا جہاں بے انتہا نمی تھی جس کے باعث گیند بہت زیادہ گھومتی تھی، کوئی ائرپورٹ بھی نہیں تھا۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کئی گھنٹے بس کے ذریعے سفر کرکے وہاں پہنچی تھی۔ آئی سی سی نے بھارت کی اس حرکت پر کوئی پشیمانی ظاہر نہیں کی تھی۔ ہم بھی اپنے گرم اور سرد علاقوں سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے اپنے دورۂ انگلینڈ کا آغاز لارڈز ٹیسٹ میچ سے کیا۔ پہلی بیٹنگ پاکستان کی تھی۔ 134رنز پر پاکستان کی چوتھی وکٹ گر گئی جب یونس خان صرف 33 رنز بناکر آؤٹ ہوگئے تھے۔ اس موقع پر کپتان مصباح الحق نے ذمے داری کا ثبوت دیتے ہوئے ٹھیر کر آہستہ کھیلنا شروع کیا اور بالآخر اپنی سنچری مکمل کرلی۔ وہ مردِ میدان ہیں۔ سنچری بنانے کے بعد مصباح الحق جب زمین پر جھکے تو غالب گمان یہی تھا کہ اب وہ سجدہ ہی کریں گے کیونکہ مصباح کی روایت اور شکر کا طریقہ بھی یہی ہے۔ لیکن مصباح نے اپنی روایت کے برعکس سجدے کے بجائے پش اَپ لگانے شروع کردیے۔ مصباح کو یہ دکھانا تھا کہ میں ابھی تک جسمانی طور پر مکمل صحت مند ہوں۔ وہ اﷲ تعالیٰ کی عطا اور شکر بھول گئے کہ جس نے انہیں ابھی تک پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا حصہ بنائے رکھا ہے۔ مصباح نے لارڈز ٹیسٹ میچ میں سنچری بنا کر برطانیہ کے کسی کھلاڑی کا ریکارڈ توڑ دیا جس نے 42 سال کی عمر میں سنچری بنائی تھی۔ مصباح پاکستان کے پہلے کھلاڑی بن گئے ہیں جنہوں نے طویل عمر میں ٹیسٹ سنچری بنائی جس پر اُنہیں ’’اولڈ ماسٹر‘‘ کا خطاب دینا چاہیے۔ میرے دل میں اُس وقت اس خدشے نے جنم لیا کہ کہیں مصباح یہ میچ ہروا نہ دیں۔ اﷲ کا کرنا دیکھیے کہ مصباح اس ٹیسٹ کی دوسری اننگ میں صفر پر آؤٹ ہوئے اور پاکستان یہ میچ جیت گیا۔ مصباح کو اپنا رویہ تبدیل کرنا چاہیے۔
آپ دنیا کے کسی بھی بڑے کرکٹر کا ریکارڈ دیکھ لیں، اس میں تسلسل ملے گا۔ جیسے کہ سرڈان بریڈ مین، سنگاکارا ، رکی پونٹنگ، سچن ٹنڈولکر، مہیلا جے وردھنے، ویوین رچرڈز، ویرات کوہلی۔ یہ لوگ ایک سنچری بنانے کے بعد بھی 50، 60 یا 80رنز دوبارہ بناتے ہیں۔ پھر ایک اور سنچری بنالیتے ہیں۔ جبکہ ہمارے پاکستانی کھلاڑی ایک سنچری بنانے کے بعد اگلی اننگ میں صفر پر آؤٹ ہوجاتے ہیں۔ مصباح جی جھکو اور ریکارڈ بناؤ۔
پہلا ٹیسٹ میچ جیتنے کے بعد پوری ٹیم گراؤنڈ میں آئی اور پش اَپ لگانے شروع کردیے۔ اگر ٹیم گراؤنڈ میں سجدے کرتی تو اﷲ تعالیٰ انہیں انعام میں ایک جیت اور دے دیتا۔ پاکستانیوں نے شکر کے بجائے غرور کیا۔ اﷲ تعالیٰ نے انہیں مسلسل شکستوں سے دوچار کردیا۔ حالانکہ تیسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں پاکستان نے انگلینڈ پر 103 رنز کی برتری حاصل کررکھی تھی، لیکن اس کے باوجود جیتا ہوا آسان میچ پاکستان ہار گیا۔ پہلی اننگز میں برتری کے بعد بھی کوئی ہارتا ہے؟
یونس خان بنیادی طور پر کراچی کا رہائشی ہے۔ یونس نے جب فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنی شروع کی تو اسے کبھی کراچی کی کرکٹ ٹیم میں کھیلنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا جس سے بددل ہوکر وہ پشاور چلاگیا اور پشاور کی کرکٹ ٹیم میں شامل ہوگیا، اور اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر پاکستانی ٹیم کا مستقل رکن بن گیا۔ بعدازاں اسے ٹیم کا کپتان بنادیا گیا۔ جب یونس خان کو کرکٹ بورڈ کے سربراہ نے ملنے کے لیے اپنے دفتر میں بلایا اور دس منٹ تک باہر ہی انتظار کروایا تو یونس خان نے غصے میں آکر کپتانی سے ہی استعفیٰ دے دیا۔ یونس گرم مزاج اور اپنی صلاحیتوں پر بھروسا کرنے والا ایک بڑا کھلاڑی ہے۔
11 اگست 2016ء کو لندن کے اوول گراؤنڈ میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان چوتھا اور آخری ٹیسٹ میچ شروع ہوا۔ اس بار یونس خان کچھ بدلے بدلے اور خاموش سے نظر آئے۔ وہ گزشتہ 6 اننگز میں صرف سوا سو رنز ہی بنا پائے۔ وہ ایک بڑا اسکور کرنا چاہتے تھے اور اﷲ کے اطاعت گزار بندے نظر آرہے تھے۔ انگلینڈ پہلے ہی 1-2سے یہ سیریز جیت رہا تھا۔ اگر وہ یہ میچ بھی جیت جاتا تو سیریز 1-3سے جیت جاتا۔ انگلینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ انگلینڈ کی پوری ٹیم پہلے ہی دن صرف328 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی۔ پاکستان نے بیٹنگ شروع کی اور جلد ہی پہلا کھلاڑی آؤٹ ہوگیا۔ پہلے دن کا کھیل ختم ہوا تو3 رنز پر ایک کھلاڑی آؤٹ تھا۔ دوسرے روز تمام دن پاکستان ہی کھیلتا رہا اور340 رنز 6کھلاڑی آؤ ٹ پر بنالیے۔ یونس نے دورے کی پہلی سنچری اسکور کرلی اور101 رنز بنالیے، ساتھ میں سرفراز احمد تھے جو 17رنز پر بیٹنگ کررہا تھا اور برے وقت کا اچھا کھلاڑی ہے۔ لیکن ابھی برتری صرف 12رنز ہی کی تھی جبکہ انگلینڈ کو ہرانے کے لیے کم از کم 150رنز کی برتری ضروری تھی۔
یونس خان ایک لمبی اننگ کھیلنا چاہتے تھے مگر ان کا ساتھ دینے کے لیے پاکستانی دستے میں کوئی بھی بیٹسمین باقی نہیں تھا۔ یونس نے سرفراز کے ساتھ کچھ پارٹنرشپ کی۔ پھر 9 ویں وکٹ پر یونس نے 97 رنز کی پارٹنر شپ کی جس میں انہوں نے 3 شاندار چھکے بھی لگائے اور چھکے ہی سے اپنی عمدہ ڈبل سنچری بھی مکمل کرلی، ساتھ ہی برطانیہ پر 200 رنز کی برتری بھی حاصل کرلی۔ یونس خان گزشتہ6 اننگز میں صرف سوا سو رنز ہی بنا پائے تھے، اِس بار وہ ایک اننگ میں دوسو رنز بنا گئے۔ ساتھ ہی انگلینڈ کو شدید دباؤ میں بھی لے آئے۔ یہ چوتھا موقع تھا جب پاکستان نے انگلینڈ پر پہلی اننگ میں 200 رنز کی واضح برتری حاصل کرلی تھی۔ یونس کے ایک اچھے دوست محمد اظہرالدین نے کھیل کی دوسری رات بھارت سے فون کرکے یونس خان کو سمجھایا تھا کہ تم ایک باصلاحیت کھلاڑی ہو، اگر کریز پر موجود رہے اور آہستہ آہستہ بھی اسکور بڑھایا اور ڈبل سنچری مکمل کرلی تو انگلینڈ شدید دباؤ میں آجائے گا اور پاکستان یہ میچ آسانی سے جیت جائے گا۔ یونس نے دوست کا بھرم رکھ لیا۔ اﷲ تعالیٰ کے کرم سے یونس نے وہ کام کردیا جو باقی پاکستانی بلے باز نہیں کرپائے تھے۔ یونس خان اس کے جواب میں عاجزی، انکساری، شکر اور ماضی کی اکڑ کو بھول کر اﷲ کے حضور سجدے میں گرگئے۔ اﷲ نے بھی پھر انہیں ٹرپل انعام سے نوازا، اوّل وہ مین آف دی میچ بن گئے، دوم پاکستان یہ میچ جیت کر سیریز برابر کرنے میں کامیاب ہوگیا اور پاکستان کی 14اگست کی خوشیاں دوبالا ہوگئیں، سوم وہ ایک نیا ریکارڈ بنانے میں کامیاب ہوگئے کہ وہ پاکستان کی طرف سے واحد کھلاڑی بن گئے جس کی پانچوں ڈبل سنچریوں کی بدولت پاکستان پانچ مرتبہ مختلف ملکوں سے ٹیسٹ میچز جیت سکا ہے، ورنہ اس سے پہلے حنیف محمد، ظہیر عباس اور جاوید میاں داد کئی کئی ڈبل سنچریاں بنا چکے ہیں۔ لیکن اکثر میچز میں ان کی ڈبل سنچریوں کے باوجود بھی پاکستان میچ ڈرا ہی کر پایا ہے۔ یونس خان کی صرف ایک ڈبل سنچری ہے جو ٹرپل سنچری میں تبدیل ہوئی ہے اور وہ ضائع ہوئی ہے۔ کیونکہ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان وہ میچ ڈرا ہو گیا تھا۔ یونس خان جلد ہی پاکستان کی طرف سے دس ہزار رنز بنانے والے پہلے کھلاڑی بن جائیں گے۔ اﷲ کرے کہ وہ یہ کارنامہ پاکستان کی سر زمین پر ہی انجام دیں۔
وہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات