چین پاکستان اقتصادی راہداری

165

محمد انور

’’چین پاکستان اقتصادی راہداری‘‘ (سی پیک) بلاشبہ عظیم ترقی کا ایک ایسا منصوبہ ہے جس سے پاکستان کی نہ صرف معاشی حالت بہتر ہوسکے گی بلکہ پاکستان کم وقت میں ترقی کے غیر معمولی مراحل طے کرکے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوجائے گا۔
یہی وہ منصوبہ ہے جس کی وجہ سے بھارت، افغانستان اور امریکا کی نیندیں اڑچکی ہیں۔ اس منصوبے کی تکمیل سے اگرچہ چین کی طاقت میں غیر معمولی اضافہ ہوگا۔ تاہم اس منصوبے سے بھارت کے مفادات کو ٹھیس پہنچے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف سازشیں تیز کردی ہیں۔ تاہم پاکستان کی مسلح افواج چونکہ قیام پاکستان کے بعد سے بھارت کی سازشوں سے واقف ہیں، اس لیے فوج نے طالبان اور دیگر لسانی گروہوں کے نام سے غیر ملکی آقاؤں کے اشارے پر پاک وطن میں مسلسل دہشت گردی میں ملوث افراد کا قلع قمع کرنے کے لیے نہ صرف آپریشن ضربِ عضب شروع کرکے بلکہ کراچی آپریشن کے ذریعے بھی سازشی ممالک کے عزائم ناکام بنایا ہے۔ اس بڑے آپریشن کا مقصد جہاں ملک سے دہشت گردوں کا خاتمہ تھا، وہیں چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی بلا رکاوٹ تکمیل بھی ہے، جس کے ذریعے چین کو جنوبی اور وسطی ایشیا سے زمینی راستے (جسے دنیا شاہراہ ریشم کے نام سے جانتی ہے) کے ذریعے ایک دوسرے سے جوڑنا ہے۔ اس منصوبے کی شروعات کے لیے بہت سی کوششیں ماضی میں کی گئیں، لیکن مختلف وجوہات کی بناء پر کامیابی نہیں ہوسکی تھی۔
شاہراہِ ریشم کا تصور چینی ہان خاندان کی بادشاہت نے پیش کیا تھا۔ ہان بادشاہت چین کی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتی ہے جس نے چین کو اپنے دور میں ترقی کی نئی بلندیوں تک پہنچایا تھا۔ ہان بادشاہت کے خاتمے کے کچھ سالوں بعد ہی یہ تجارتی راستہ بھی ویران ہوتا چلاگیا۔ بارہویں صدی میں چین کی سرزمین سے پیدا ہونے والی نئی منگول سلطنت کے پہلے بادشاہ چنگیزخان نے پھر سے اس تجارتی راستے کو آباد کرنے کی کوشش کی۔ اسی کوشش میں چنگیزخان نے اُس وقت کی خوارزم شاہی سلطنت (ازبکستان، افغانستان، ایران) کی طرف 500 تاجروں کے قافلے کو تجارت اور تجارتی مراسم کی غرض سے روانہ کیا جسے خوارزم شاہی سلطنت کے صوبہ اوت کے گورنر نے لوٹ لیا اور ان کو وہاں سے ہی واپس روانہ کردیا۔ اس واقعہ کی تلافی اور تجارتی مراسم قائم کرنے کے لیے چنگیزخان نے پھر سے اپنے تین سفیر خوارزم شاہی سلطنت کے شاہ کی طرف روانہ کیے جن میں سے ایک کا سر شاہ نے باقی دو سفیروں کے ہمراہ واپس بھجوا دیا، اس واقعے کے ساتھ ہی اس تجارتی راستے سے فائدہ حاصل کرنے کی دوسری کوشش بھی دم توڑ گئی، اور اس واقعے نے خوارزم شاہی سلطنت کے خلاف منگولوں کی جارحیت کو جنم دیا جس کے نتیجے میں منگول ایشیا کے ایک بہت بڑے حصے پر قابض ہوگئے۔ منگولوں کی اس خونیں جارحیت کے بعد علاقے میں سیاسی استحکام کے نتیجے میں شاہراہِ ریشم کی تجارتی سرگرمیاں پھر سے بحال ہونا شروع ہوگئیں، مگر افسوس اس تجارتی شاہراہ کی رونقیں زیادہ دیر جاری نہ رہ سکیں۔ یہ رونقیں ایک بار پھر سے اندرونی سیاسی انتشار اور سلطنتوں کے آپس کے جھگڑوں کی نذر ہوگئیں۔ اسی شاہراہ ریشم کے تصور کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے چین نے اکیسویں صدی میں ایک بار پھر سے ’’ون روڈ، ون بیلٹ‘‘ کے نام سے سال 2013ء سے اس پر کام کا آغاز کیا، جس کا مقصد قدیم شاہراہ ریشم کو ایک نئے انداز میں پھر سے فعال اور فائدہ مند بنانا ہے۔ شاہراہ ریشم کے تجارتی روٹ کی بحالی میں چین نے اپنے سب سے قریبی دوست پاکستان کو اہمیت دی، جس کی وجہ پاکستان کا قدیم شاہراہ ریشم کے ایک اہم حصہ پر واقع ہونا ہے۔ چین نے اس معاملے پر ابتدائی کام کرکے اس عظیم منصوبے ’’پاکستان چین اقتصادی راہداری‘‘ کو پاکستان کی مدد سے حتمی شکل دے کر اس پر 2015ء کے شروع میں کام کا آغاز کیا۔
اس منصوبے پر ابتدائی طور پر 46 بلین ڈالر اخراجات کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ اس منصوبے پر کام کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہ منصوبہ چین کے صوبے کاشغر سے ہوتا ہوا پاکستان کے سرحدی علاقے خنجراب سے پاکستان میں داخل ہوکر پاکستان کے مشرقی اور مغربی شہروں کو آپس میں ملاتے ہوئے پاکستان کے ساحلی علاقے گوادر پر ختم ہوگا۔ اس پروجیکٹ کی تکمیل سے نہ صرف چین اپنی مصنوعات گلف، یورپ اور افریقہ تک بروقت پہنچا سکے گا بلکہ مستقبل قریب میں وسط ایشیائی ریاستیں بھی اسی راستے کو استعمال کرتے ہوئے اپنی مصنوعات کو عالمی منڈیوں تک بآسانی اور کم وقت میں پہنچا سکیں گی، اور پاکستان بھی اسی تجارتی راستے کو استعمال کرتے ہوئے اپنی مصنوعات وسط ایشیائی منڈیوں تک بآسانی پہنچا سکے گا۔ جبکہ ایک اندازے کے مطابق چین پاکستان اقتصادی راہداری سے خطے کی تین ارب آبادی کو فائدہ ہوگا، ساتھ ہی خطے کو آپس میں منسلک کرنے میں بھی یہ راہداری مددگار ثابت ہوگی۔
چند روز قبل ترقی اور منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ بلوچستان اور فاٹا میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ پر تین جامعات بنائی جارہی ہیں۔ یہ یونیورسٹیاں حکومتی پروگرام کا حصہ ہیں، جس کے تحت بجلی کی پیداوار اور انفرااسٹرکچر کے ساتھ ساتھ معیاری تعلیم پر بھی فوکس کیا جائے گا۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ سی پیک 15 سال طویل منصوبہ ہے جو کہ موجودہ حکومت کے دور تک محدود نہیں۔ اس منصوبے کے بارے میں وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا ہے کہ بھارت جیسی دس طاقتیں بھی سی پیک منصوبے کو ناکام نہیں بناسکتیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال کے آغاز میں چین کے صدر نے پاکستان کے دورے کے دوران چین پاکستان اقتصادی راہداری، بجلی کی پیداوار اور دیگر منصوبوں کے لیے سرمایہ کاری کے حوالے سے معاہدے کیے تھے۔ اس منصوبے کو پاکستان کی قسمت بدلنے کے حوالے سے ایک ’’گیم چینجر‘‘ کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے کم و بیش سات لاکھ افراد کو روزگار کے مواقع حاصل ہوں گے۔
منصوبے کی تکمیل سے حاصل ہونے والے بیش بہا فوائد اور مستقبل قریب میں ایشیا کا دوسرا بڑا تجارتی مرکز بننے کے فوائد کو نظرانداز کرکے کچھ ناسمجھ لوگ غیر ملکی بلکہ دشمن ممالک کے اشارے پر منصوبے کو سیاسی انتشار اور علاقائی لڑائی جھگڑوں کی نذر کرنا چاہتے ہیں۔تاہم اب پاکستان اور چین کے تعلقات مزید بہتر ہونے کے بعد سازشی ممالک کا یہ خواب اب صرف خواب ہی رہ جائے گا۔ کیونکہ اب نہ صرف پاکستان بلکہ چین بھی ان سازشوں کو اچھی طرح سمجھ چکا ہے۔اس ضمن میں چین نے ایک بار پھر گزشتہ روز بھارت پر واضح کیا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر اس کا کوئی بھی اعتراض قابلِ قبول نہیں۔ چینی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ مل کر اقتصادی راہداری منصوبے کی تعمیر کو آگے بڑھائے گا اور اقتصادی نوعیت کے اس انقلابی منصوبے پر بھارت سمیت کسی بھی ملک کے کسی بھی اعتراض کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔