اردو کی ترویج ترقی کا سفرہے

210

پاکستان کا غالب حکمران طبقہ انگریزی زبان کا رسیا ہے کیوں کہ اُن کے مفادات اب تک انگریز آقاؤں سے منسلک ہیں۔ وہ روز مرہ زندگی میں انگریزی وضع قطع کو ترقی کا زینہ سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اردو زبان کو ملک میں رائج کرنے میں اُن کی غیر سنجیدگی سمجھ میں آتی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود سابق چیف جسٹس جناب جواد۔ایس۔ خواجہ نے پہلی دفعہ اردو میں حلف اُٹھا کراردو کے خلاف کالے انگریزوں پر ایک کاری ضرب لگائی تھی اور اس کے بعد اُنھوں نے دفتر کے باہر اپنے نام کی تختی اردو میں لکھوائی، پاکستان کی انگریزی اشرافیہ کے لیے یہ صورت حال کوئی خوش کن نہیں تھی کیوں کہ اردو کو ہر شعبہ زندگی میں رائج کرنے کا مطلب کروڑوں لوگوں کو زبان دینا ہے۔ اب تک انگریزی عرضی نویسوں کو ڈھونڈنا پڑتا تھا لیکن اردو کے رائج ہو جانے پر یکدم عرضی لکھنے والوں کی تعداد کروڑوں میں پہنچ جائے گی جو یقیناً نوکرشاہی اور سرکاری اہلکاروں کے لیے خاصی پریشانی پیدا کر سکتی ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے دیار غیر میں کوئی ہم وطن مل جائے تو آدمی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کی اپنی قومی یا مادری زبان میں بات چیت کرتا ہے۔توقع ہے کہ عوام بھی اپنی 69 سال کی دفتری زبان انگریزی سے پیدا ہونے والی لاچارگی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے بھر پور جدوجہد کریں گے۔
اردو کے بطور سرکاری زبان نفاذسے ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ بڑے بڑے انگریزی فارم، سرکاری شرائط،بینک کے قوانین،دفاتر کے قوانین،عدالتوں کے فیصلے قومی زبان میں منتقل ہونے سے عوام کے پاس علم و آگاہی کا سمندر آجائے گا اور جو پاکستانی اردو سرکاری زبان نہ ہونے کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرنے سے قاصر ہیں۔پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ 1970 کی طرح ایک بار پھر پاکستان دشمن قوتیں پاکستانی عوام میں نفاق پیدا کرنے کے لیے زبان کا مسئلہ کھڑا کر سکتی ہیں۔ابھی تک اردو کے نفاذ کے معاملے کو میڈیا میں پزیرائی حاصل نہیں ہوئی ہے، اسی لیے پرنٹ،سماجی وبرقی میڈیا پر عدالت عظمیٰ کے فیصلے یا چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اختیار کی گئی اردو کے نفاذ کی عملی کاوشوں کو مو ضوع گفتگو نہیں بنایا گیا۔ہم یہ تجویز کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اردو کے نفاذ میں ذرائع ابلاغ جتنا زیادہ کردار ادا کریں گے اتنی ہی تیز رفتاری سے ہر شعبہ زندگی میں اردو نافذ ہوگی۔ ساتھ ہی ہم یہ واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اردو کے نفاذ کا قطعاً مطلب یہ نہیں کہ صوبائی و علاقائی زبانوں کو نظر انداز کردیاجائے۔پاکستان چار صوبوں پر مشتمل،مختلف تہذیبوں کی ثقافت لیے ہوئے،ایک اسلامی و فلاحی مملکت ہے، اس کاحسن تمام صوبائی اکائیوں کی تہذیب و ثقافت سے ہے،ہر صوبے کو اپنی تہذیب و تمدن اور ثقافت کے احیاء اور ترویج کے لیے اقدامات کرنے کا حق حاصل ہے۔
گزشتہ سال اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں تمام مندوبین نے اپنے موقف کا اظہار اپنی قومی ز بان میں کیا لیکن وزیر اعظم پاکستان نے اپنی تقریر انگریزی زبان میں کی گو کہ وہ اپنی تقریر اردو میں کرنے کا ارادہ رکھتے تھے کیوں کہ وزیراعظم سرکاری تقریر نویس سے تقریر اردو میں لکھوا کر لے کر گئے تھے لیکن انگریزی وضع و قطع کی مالک پاکستان کی جانب سے مقرر مندوب’’ملیحہ لودہی‘‘نے میاں صاحب کو اردو میں تقریر کرنے سے منع کیا اور وزیر اعظم صاحب کی خواہش کا گلا گھونٹ دینے کے ساتھ ساتھ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی بھی دھجیاں اُڑائیں، اس قسم کے گندمی انگریز اردو کے نفاذ اور پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، پھر عوام نے ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ بھی دیکھا کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اپنا موقف ہندی زبان میں پیش کیا۔اس کے باوجودہم توقع کرتے ہیں کہ اردو بطور سرکاری زبان نفاذ کی کمیٹی کے سر براہ جناب عرفان صدیقی صاحب سے کہ اُن کے ہوتے ہوئے عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ ان فیصلوں میں شامل نہ ہو نے پائے گا جو سنائے تو گئے لیکن عمل درآمد سے محروم رہے۔خبر یں آرہی تھیں کہ موجودہ حکومت نے اردو کو سرکاری طور پر رائج کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا تھا جو خوش آئند تھا لیکن ملیحہ لودھی جیسے انگریزی زبان کے حامی جن کی اولادیں دیار غیر میں تعلیم حاصل کرتی ہیں ایسے افراد کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان کی اگلی نسل ترقی یافتہ پاکستان کہلانے کے لیے پہلا قدم اٹھاسکے۔ اردو کے نفاذ پر دیئے گئے فیصلے کو ایک سال ہونے کو ہے لیکن اس پر عملدرآمد کا نہ ہونا لمحہ فکر ہے لہٰذا شعبہ ہائے زندگی کے تمام حلقوں کو اردو کی ترویج کے لیے بھر پورجدوجہد کرنی ہو گی۔
اپناؤ گے جو دوستوں تم اردو زبان کو
روکے گا پھر نہ کوئی تمھاری اُڑان کو