عدالت کی نیب پر برہمی

131

عدالت عظمیٰ قومی احتساب بیورو، نیب کی کار کردگی سے مطمئن نہیں ہے اور خود اس ادارے کا احتساب کررہی ہے۔ گزشتہ دنوں تو نیب سندھ کے سربراہ کے بارے میں عدالت نے بڑا سخت تبصرہ کیا ہے کہ اس نے گند مچایا ہوا ہے۔ عدالت کو اس پر اعتراض تھا کہ نیب دو، چار لاکھ کی بد عنوانی کے معاملات کے پیچھے پڑ گئی ہے جو محکمہ انسداد رشوت ستانی کا کام ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ کروڑوں، اربوں روپے کی کرپشن کے سامنے اب لاکھوں کی کرپشن کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔ عدالت عظمیٰ نے گزشتہ جمعہ کو کراچی میں بد عنوانی کے معاملات کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیب کیسز میں رقوم کی رضاکارانہ واپسی آئین سے متصادم ہے۔ کراچی رجسٹری میں جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نیب کے اختیارات سے متعلق مقدمے کی سماعت کررہی ہے۔ اس موقع پر جناب جسٹس مسلم نے ریمارکس دیے کہ رقوم کی رضاکارانہ واپسی سے کرپشن ختم نہیں ہوئی بلکہ اسے بڑھاوا ملا ہے۔ ایک شخص کروڑوں روپے کی کرپشن کے بعد آدھی رقم قسطوں میں ادا کرکے اپنے منصب پر بیٹھ جاتا ہے، رضاکارانہ رقوم واپس کرنے والوں کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی نہ ہونا رشوت میں اضافے کا سبب ہے۔ نیب اپنی توانائیاں چھوٹے چھوٹے معاملات میں صرف کر رہا ہے۔ جب کہ ڈائریکٹر جنرل نیب چیئرمین نیب کی دی گئی پالیسی سے بھی انحراف کررہا ہے۔عدالت عظمیٰ نے یہ معاملہ لارجر بینچ کے حوالے کردیا کہ وہ طے کرے نیب، اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے کی بد عنوانی کے معاملات میں اختیارات کی کیا حدود ہیں۔ لارجر بینچ ایسے سرکاری افسران کے معاملات کا جائزہ لے جو رضاکارانہ طور پر رقوم واپس کرکے سرکاری پوزیشن پر موجود ہیں۔ پلی بارگین کے نام سے جو کھیل چل رہا ہے اس پر عرصے سے اعتراضات ہورہے ہیں اور اسے ’’کچھ لو، کچھ دو‘‘ کا معاملہ قرار دیا جاتا رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے بروقت اس کی گرفت کی ہے۔ ستم یہ ہے کہ نیب اپنی اس کارکردگی پر فخر کا اظہار بھی کرتا ہے کہ دیکھو، ہم نے اتنے پیسے غاصبوں سے نکلواکر سرکاری خزانے میں ڈال دیے۔ یہ نہیں بتایاجاتا کہ کتنے پیسے غصب کرلیے گئے۔ 10 کروڑ کے غبن میں سے اگر 5 کروڑ واپس مل گئے تو باقی 5 کروڑ کہاں گئے؟ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بھاری رقم کا غبن کرکے اسے کسی کے نام سے فکس ڈیپازٹ میں جمع کرادیا گیا اور سال بھر میں اس پر جو سود ملا اس میں سے کچھ واپس کردیاگیا۔ایک معمولی سے چور کو تو پہلے پولیس مارتی ہے پھر عدالت اسے سزا دینے میں عجلت کا مظاہرہ کرتی ہے لیکن کروڑوں، اربوں روپے کی چوری کرنے والے دندناتے پھر رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ بڑے بڑے قرضے لے کر معاف کرانے والے بھی بڑے چور اور لٹیرے ہیں۔ ان کی جگہ تو جیل میں ہونی چاہیے تھی لیکن وہ معزز بنے ہوئے ہیں۔ قرضے معاف کرنے والوں سے بھی پوچھنا چاہیے کہ کیا یہ ان کے باپ کا مال تھا کہ معاف کردیا۔ یہ قرضے جو بینکوں سے لیے جاتے ہیں، یہ عوام کی دولت ہے۔ کیا تماشا ہے کہ ایک طرف تو بڑے بڑے قرضے معاف ہوجاتے ہیں اور دوسری طرف پوری قوم کو قرضوں میں ڈبودیا گیا ہے۔ کیا نیب یا کوئی اور ادارہ اس کی گرفت کرے گا؟