رخشندہ نعیم
’’امیر حمزہ! یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ کچھ دنوں سے تم نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوا ہے کہ ابھی اذان بھی نہیں ہوئی اور تم نے کاپیاں کتابیں بکھری چھوڑ کر مسجد کی طرف رخ کیا؟ اور تو اور، نماز ختم ہونے کے بھی آدھا پونا گھنٹے بعد واپسی ہونے لگی ہے۔ میں پوچھتی ہوں آخر یہ راز کیا ہے؟‘‘ امی نے حیرت اور پریشانی سے آنکھیں دکھاتے ہوئے معلوم کرنا چاہا۔ امیر حمزہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس مشکل سوال کا کیا جواب دے کہ امی کا پارہ نیچے آجائے۔ وہ سر جھکا کر خاموشی سے قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوگیا۔ اس کا خیال تھا کہ اس طرح امی بہت جلد راضی ہوجائیں گی۔
لیکن امی کی رفتار اور تیز ہوگئی۔
امی: ’’میری تو عقل کام نہیں کررہی۔ چھٹی جماعت میں کامیابی کے بعد تم نے دو سال حفظ میں لگا دیے، اب اتنا سارا عرصہ تم نے نہ کاپیاں کھولیں نہ کتابیں پڑھ سکے، اب 9th کا وہ بھی بورڈ کا امتحان۔۔۔ یہ سب تیاری کیسے ہوگی؟ جبکہ ششماہی امتحانات عیدالاضحی کے فوراً بعد ہی سر پر کھڑے ہیں اور لگتا ہے کہ تمہاری توجہ کا سارا مرکز گلی گلی محلے محلے میں کھڑے گائے اور بکرے رہ گئے۔ آتے جاتے انہیں سلام کرنا تمہارا فرض ہوگیا ہے۔‘‘
امیر حمزہ کو اپنا راز فاش ہوتا نظر آیا تو ہمت کرکے اس نے اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار کرنے کے لیے الفاظ تلاشنے شروع کردیے۔
امی سر پکڑے بیٹھی سوچ میں پڑ گئیں، شاید انہیں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ گتھی کا سرا کہاں تلاش کریں اور ڈور کو کیسے سلجھائیں۔ کیونکہ بار بار سمجھانے بجھانے کے باوجود دن بدن منڈی جانے کا شوق، جانوروں کی خریداری اور قربان کرنے کا جذبہ جڑ پکڑتا جا رہا تھا، اور وہ وقتاً فوقتاً سب کے کان میں یہ بات ڈالتا جارہا تھا کہ اگلے سال تک تو بڑے بھائی کی ٹیوشن کی آمدنی میں مزید اضافہ ہوجائے گا، اور اس طرح ہم ایک عدد گائے قربان کرنے کے قابل اور اہل بھی ہوجائیں گے۔ یہ سب سوچ سوچ کر اور خیالی پلاؤ پکاکر اس کا دل بلیوں اچھلتا اور آنے والے تابناک اور روشن مستقبل کا خیال تیرہ سالہ امیر حمزہ کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک اور زندگی کی خواہش کا اظہار بننے لگا۔
اکثر اوقات امی، ابو سے امیر حمزہ اور ہماری تعلیم و تربیت کے بارے میں مشورے بھی طلب کرتیں اور ابو کو بھی آمادہ کرتیں کہ وہ بھی اپنا حصہ ڈالیں۔ لہٰذا وہ بھی حتی الامکان ہم سب کو موقع کی مناسبت اور نزاکت کا خیال رکھتے ہوئے تربیت کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ تلاوتِ قرآن کے بعد امیر حمزہ امی سے بڑے پیار سے مخاطب ہوا:
’’امی! آپ یہ بھی تو دیکھیے کہ آج کل باہر ہر طرف رونق، اور خاص کر لڑکوں کی اور دوستوں کی مصروفیات، مشاغل اور آپس کی گفتگو کا موضوع ہی قربانی سے متعلق چیزیں ہیں۔ ایک ماحول بنا ہوا ہے اور میں پھر بھی کوشش کرتا ہوں کہ اپنی تمام ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے ادا کروں، اور یہ تو چند دن کی بات ہے، پھر سب کچھ معمول کے مطابق ہوجائے گا۔ بس آپ پریشان نہ ہوں‘‘۔ اور پھر ہم سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے۔
میں اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی ہوں۔ امیر حمزہ مجھ سے دو سال چھوٹا ہے جبکہ بڑے بھائی تقریباً دو سال بڑے ہیں۔ ہم سب بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت پر ہمارے والدین کی گہری نظر رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بڑے بھائی اور میری طرف سے انہیں کبھی کوئی تشویش اور پریشانی کا موقع نہیں ملا۔
لیکن امیر حمزہ چونکہ حافظ بھی ہے اور چھوٹی سی عمر میں ماشااللہ 9th میں ہے، لہٰذا اس پر ہم سب ہی کی گہری نظریں رہتی ہیں۔
آج ذی الحجہ کا چوتھا دن ہے، مجھے یاد ہے کہ پچھلے سال اللہ کے حکم اور فضل سے ہمارے والدین حرمین شریفین میں حج کی سعادت سے فیض یاب ہورہے تھے اور ہم تینوں بہن بھائی اُن کے بغیر ہی عیدالاضحی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ منا رہے تھے اور اتنی بڑی سعادت (اللہ قبول فرمائے) پر دل ہی دل میں خوش بھی تھے اور ان کی کمی بھی شدت سے محسوس ہورہی تھی۔
الحمدللہ ہم تینوں بہن بھائی اپنی اپنی عمروں کے لحاظ سے دینی اجتماعیت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اچھی صحبتیں اور اچھی عادتیں اختیار کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ مطالعہ کے لیے بہترین کتابیں اور اپنی عمدہ کوشش تحریر کے لحاظ سے، ان تمام مواقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش رہتی ہے۔ لیکن پھر بھی ہم انسانوں کو ہر لمحہ اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی ضرورت بھی رہتی ہے۔ الحمدللہ ہمارے اسکول کا بہترین سسٹم ہے اور اساتذہ بھی ہماری تعلیم و تربیت میں بہترین مددگار ہیں۔
میں نے امی کی فکر اور تکلیف کی شدت کا اندازہ کرتے ہوئے موقع پاتے ہی امیر حمزہ کو ساتھ لے کر چھت کی بالکونی جہاں سے پوری گلی کا جائزہ لیا جاسکتا ہے، کا رخ کیا۔ ہر دوسرے گھر کے سامنے ایک عدد گائے یا بکرا بچوں، بچیوں اور لڑکوں کے جلو میں نظر آیا۔ رونق اور گہماگہمی تھی۔ رات گئے تک قربانی کے جانوروں کی خدمت گاری میں سب فخر محسوس کررہے تھے کہ کہیں کوئی کمی اور کسر نہ رہ جائے۔
میں گہری سوچ میں پڑگئی اور پھر امیر حمزہ سے مخاطب ہوئی تاکہ اسے بھی اپنی سوچ و فکر میں شریک کرلیا جائے۔
’’امیر حمزہ! میرے چھوٹے بھائی دیکھو کتنا اچھا منظر ہے، ہر طرف خوشیاں نظر آرہی ہیں۔ لیکن میرے بھائی، کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی یہی شکل پیش کی تھی؟ اسی طرح بقرعید اور قربانی کا ماحول بناکر دیا تھا؟ کیا ہم انہی طور طریقوں کو اختیار کرتے ہوئے وہ مقصد حاصل کرسکتے ہیں جو کہ ابراہیمؑ کی سنت اور حج کے اتنے بڑے اجتماع سے ہمیں حاصل ہونا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حجۃ الوداع کا خطبہ پیغام دے رہا ہے کہ ہمیں اسلام پر کس طرح ثابت قدم رہنا ہے، اور اسلام کو کس طرح قائم کرنا ہے۔ ہم نے اصل مشن بھلا دیا اور دوسری ہی چیزوں میں پڑگئے۔‘‘
امیر حمزہ: ’’جی ہاں باجی، میں بھی جب ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کی قربانی کا سوچتا ہوں تو جی چاہتا ہے کہ اللہ کے راستے میں اسی جذبے سے قربانی کے لیے جانور تلاش کروں اپنی جیب کو دیکھتے ہوئے۔ پھر گھر لاکر اس کی خدمت کرکے اسے مانوس کروں، پھر اپنی پسندیدہ چیز کو اللہ کے راستے میں قربان کروں تاکہ اللہ ہماری قربانی کو قبول فرمائے اور وہ خوش ہوجائے۔ باجی! آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
’’ہاں امیر حمزہ تم نے بالکل صحیح سوچا، لیکن صرف جانور کی قربانی نہیں، اپنے نفس کی خواہشات اور ضروریات کی قربانی بھی دینی ہوگی!‘‘
امی قریب سے ہی ہماری گفتگو توجہ سے سن رہی تھیں اور لگ رہا تھا کہ وہ بھی دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کررہی ہیں کہ ابھی تک معاملہ ٹھیک جا رہا ہے، لیکن انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ مزید رہنمائی درکار ہے کہ ہر کام اور ہمارے تمام معاملات میں اعتدال اور خوبصورتی کس طرح پیدا کی جائے۔ یہ ذمہ داری ابو پر ڈال دی گئی۔
آج دوپہر میں دسترخوان پر ہم سب امیر حمزہ کی گفتگو سن کر حیران تھے اور خوش بھی۔
امیر حمزہ: ’’امی آج ہمارے استاد صاحب نے ہمیں عیدالاضحی کا راز بتادیا۔ قربانی دو قسم کی ہوتی ہے (1) مادی، جو نظر آتی ہے۔ (2) غیر مادی، جو نظر نہیں آتی۔ اور اللہ تعالیٰ دونوں سے خوش ہوتے ہیں، لیکن مادی قربانی آسان ہے اور غیر مادی مشکل، جیسے تقویٰ۔ جب تک تقویٰ نہ ہو مادی قربانی یعنی جانور کا ذبح کرنا بھی قبول نہیں ہوتا۔ ہماری جماعت نے دعا کی اور وعدہ کیا کہ ہم سب مسلم بچے اپنے وقت، جان، مال اور خواہشات کو اللہ کے حکم اور منشاء کے مطابق استعمال یا قربان کریں گے۔ اور اپنے باقی بھائیوں اور دوستوں کو بھی یہ راز بتائیں گے تاکہ ہمارا معاشرہ اصلی اسلامی معاشرہ بن جائے‘‘ (آمین) امی کا چہرہ خوشی اور شکر کے آنسوؤں سے چمک اٹھا اور انہوں نے لپک کر امیر حمزہ کا ماتھا چوم لیا اور ڈھیروں دعائیں دیں۔