نیکی کا حکم دوں اور برائی سے روکو۔۔۔

238

عابد علی جوکھیو
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے، یہی وہ صلاحیتیں ہیں جن کے بہتر استعمال سے انسان معاشرے کا کارگر فرد بن سکتا ہے۔ معاشرے کی بقاء کے لیے ایسے علوم کا سیکھنا فرضِ کفایہ ہے جو معاشرے کی ضروریات کی تکمیل کرسکیں۔ اسلام طب و جراحت، فلکیات، شماریات اور ایسے دیگر اہم علوم کے سیکھنے کو فرض قرار دیتا ہے تاکہ لوگوں کی ضروریات کی تکمیل ہوسکے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر ضروریات کے ساتھ ساتھ مزید چند ذمے داریاں بھی عائد کی ہیں، جو نہ صرف فرد بلکہ پورے معاشرے کی فلاح و بہبود اور بہتری کے لیے ازحد ضروری ہیں۔ ان ذمے داریوں میں سب سے اہم ذمہ داری معاشرے میں نیکی کا فروغ اور برائی کا سدباب ہے۔ یہ ایسی اہم ذمہ داری ہے جس کو ادا کیے بغیر کوئی بھی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا، کیونکہ اس کے بغیر معاشرے کا انتظام و انصرام مشکل ہوجاتا ہے۔ جب ہر فرد نیکی کے فروغ اور برائی کے سدباب کو اپنی ذمے داری سمجھ کر ادا کرے گا تو اس سے معاشرے سے برائیاں خودبخود کم اور نیکی کو فروغ ملے گا۔ نیکی کے فروغ اور برائی کے سدباب کے حوالے سے دو طرح کے اذہان و افکار موجود ہیں۔ ایک طبقۂ فکر کے مطابق صرف نیکی کے فروغ کی بات کی جائے، اس سے نیکی کو خوب فروغ ملے گا، اور جب ہر جگہ نیکی نظر آئے گی تو برائی خودبخود ختم ہوجائے گی۔ دوسرے کے مطابق صرف برائی کا قلع قمع کیا جانا چاہیے، کیونکہ جب برائی کے سارے دروازے بند کردیے جائیں گے تو لوگوں کے پاس سوائے نیکی کے کوئی دوسرا راستہ نہ ہوگا۔ ان دونوں نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام ایسا نظام پیش کرنا چاہتا ہے جہاں ان دونوں پر عمل درآمد ہو۔ یعنی جہاں نیکی کی تبلیغ بھی ہو اور برائی کے سدباب کے لیے اقدام بھی اٹھائے جائیں۔ کیونکہ یہ اٹل حقیقت ہے کہ انسان کی فطرت میں ہی نیکی اور بدی کو رکھ دیا گیا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ انسان خالصتاً نیکوکار بن جائے اور اس سے ذرہ برابر بھی خطا نہ ہو، یا پھر ایسا سیاہ کار ہو کہ اس سے کسی نیکی کو توقع تک نہ کی جاسکتی ہو۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ ان دونوں کے درمیان رہے گا، اور شیطانی اور رحمانی قوتیں بھی تاقیامت رہیں گی۔ دونوں کے درمیان معرکہ آرائی ضرور ہوگی۔ اس لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں جہاں برائی کے راستوں کو بند کرنے کی کوشش کی جائے وہیں نیکی کے لیے راستوں کو ہموار اور آسان بنایا جائے تاکہ لوگوں کے لیے نیکی کی طرف آنا آسان اور برائی مشکل ہوجائے۔ یہی ایک بہترین معاشرے کی نشانی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی یہ ذمے داری لگائی ہے کہ وہ بحیثیت فرد بھی اپنی وسعت کے مطابق نیکی کے فروغ اور برائی کے سدباب کے لیے کوشش کرے، اسلام نے یہ ذمے داری کسی خاص ٹولے یا گروہ کے حوالے نہیں کی کہ یہ صرف انہی کی ذمے داری ہے، بلکہ اسلام کے مطابق یہ معاشرے میں بسنے والے ہر فرد کی اوّلین ذمے داری ہے کہ اپنے معاشرے کو پاک اور صاف معاشرہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
(ترجمہ) ’’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی، یقیناًاللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔ ان مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان سدا بہار باغوں میں ان کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی خوشنودی انہیں حاصل ہوگی۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘ (التوبہ 71۔72)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اسی ذمے داری کو امتِ محمدیہؐ کا خاصہ قرار دیا اور اس سے براہِ راست خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
(ترجمہ) ’’اور تم میں ایسے منظم لوگ بھی ہونے چاہئیں جو (لوگوں کو) نیک کاموں کی طرف بلائیں اور اچھے کام (کرنے) کو کہیں اور برے کاموں سے منع کریں، اور ایسے ہی لوگ کامیاب ہوں گے۔‘‘ (آل عمران 104)
آگے ارشاد فرمایا:
(ترجمہ) ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اہلِ کتاب ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے بیشتر افراد نافرمان ہیں۔‘‘ (آل عمران 110)
احادیثِ مبارکہ میں بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حوالے سے تفصیلاً احکام موجود ہیں۔ حضرت عرس بن عمیرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کی غلطیوں پر سب کو (جو اس غلطی میں مبتلا نہیں ہیں) عذاب نہیں دیتے، البتہ سب کو اس صورت میں عذاب دیتے ہیں جب کہ فرماں بردار باوجود قدرت کے نافرمانی کرنے والوں کو نہ روکیں۔‘‘ (طبرانی، مجمع الزوائد)
حضرت زینب بنتِ حجشؓ فرماتی ہیں کہ میں نے پوچھا: ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم لوگ ایسی حالت میں بھی ہلاک ہوجائیں گے جبکہ ہم میں نیک لوگ بھی ہوں؟‘‘ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ہاں جب برائی عام ہوجائے۔‘‘ (بخاری)
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’وہ شخص ہماری اتباع کرنے والوں میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے، ہمارے بڑوں کا احترام نہ کرے، نیکی کا حکم نہ کرے اور برائی سے منع نہ کرے۔‘‘ (ترمذی)
حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’آدمی سے بیوی، مال، اولاد اور پڑوسی کے متعلق احکامات پورے کرنے کے سلسلے میں جو کوتاہیاں اور گناہ ہوجاتے ہیں ان کا نماز، صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کفارہ بن جاتے ہیں۔‘‘ (بخاری)
حضرت درہؓ بنتِ ابی لہب بیان کرتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! لوگوں میں سے بہترین شخص کون ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہو اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا ہو اور سب سے زیادہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کرنے والا ہو۔‘‘ (مسند احمد)
امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے کوتاہی برتنے پر احادیث میں سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’جو قوم گناہ کا کام کرے اور ان میں روکنے کے قابل کوئی شخص ہو لیکن وہ نہ روکے تو قریب ہے کہ اللہ عزوجل ان سب کو اپنے عذاب میں مبتلا کردے۔‘‘ (ابوداؤد)
حضرت ابوذر غفاریؓ بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! صاحبِ ثروت لوگ تو بہت سارا اجر و ثواب کما لیتے ہیں، وہ ویسے ہی نمازیں پڑھتے ہیں، جیسے ہم پڑھتے ہیں۔ اور اسی قدر روزے رکھتے ہیں جس قدر ہم رکھتے ہیں۔ لیکن وہ صدقہ و خیرات کرتے ہیں (جبکہ ہم اس کی طاقت نہیں رکھتے، اور وہ یوں ہم سے سبقت لے جاتے ہیں)۔ اس پر نبئ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا اللہ نے تمہارے لیے ایسی چیزیں نہیں بنائیں جن کو تم بھی صدقہ کرسکتے ہو؟ یقیناًہر تسبیح (سبحان اللہ کہنا) صدقہ ہے، ہر تکبیر (اللہ اکبر کہنا) صدقہ ہے، ہر تحمید (الحمدللہ کہنا) صدقہ ہے، ہر تہلیل (لا الہٰ الا اللہ کہنا) صدقہ ہے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر صدقہ ہے۔‘‘ (مسلم)
مذکورہ حدیث سے یہ بات واضح معلوم ہوتی ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک ایسا صدقہ ہے جس کی ایک مفلوک الحال شخص کو بھی قدرت حاصل ہے۔ یہ ایک ایسا پیمانہ ہے جس سے انسان اپنے ایمان کی کمزوری اور مضبوطی کا اندازہ کرسکتا ہے۔ یہ اور اس طرح کی دیگر احادیث میں نیکی کے فروغ اور بدی کے کاموں سے روکنے کے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اور امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ دوسروں کو وعظ و نصحیت کرتے کرتے انسان اپنے آپ کو نہ بھول جائے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ باتیں صرف دوسروں کے لیے ہی رہ جائیں اور خود شیطان کی چالوں کا شکار ہوکر تباہ و برباد ہوجائے۔ انسان کی تباہی کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ایسی باتیں کرے جن پر وہ خود عمل نہیں کرتا۔ اس حوالے سے واقعۂ معراج میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’شبِ معراج میں، مَیں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے منہ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے، میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ بتایا گیا کہ یہ دنیا کے خطبا ہیں، جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے تھے مگر اپنے آپ کو بھول جاتے تھے (یعنی خود عمل نہ کرتے تھے)۔‘‘ (مشکوٰۃ)
اللہ تعالیٰ نے ازل سے ہی خیر اور شر کی قوتوں کو رکھا ہے تاکہ جہاں یہ انسانوں کے لیے آزمائش کا ذریعہ ہو، وہیں اس سے اہلِ خیر اور شر چھٹ کر سامنے آجائیں۔ رحمانی اور شیطانی قوتوں کی جنگ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء علیہم السلام کو یہی اصل ذمے داری دی کہ وہ معاشرے سے بدی کا خاتمہ کرکے ایک خوشحال معاشرہ تشکیل دیں۔ اسی لیے مذکورہ حدیثِ قدسی میں بھی اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ معاشرے میں نیکی کے فروغ اور بدی کے سدباب کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ اور بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ذمے داری بخوبی ادا کی۔ ایک بہترین معاشرہ تشکیل دینے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کا ہر فرد امت کے نمائندے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق اس ذمے داری کو ادا کرے تاکہ انبیاء علیہم السلام کے مشن کو جاری و ساری رکھا جاسکے۔