کشمیر کی تحریک آزادی کا موجودہ مرحلہ اور ہماری ذمہ داری

224

پروفیسر خورشید احمد
تیسرا حصہ

دوسرا پہلو بھی کچھ کم اہم نہیں اور اس کا تعلق ریاست اور اس کی عظیم اکثریت کی نظریاتی، دینی، اخلاقی، تہذیبی اور سماجی شناخت کا ہے اور اس کا بھی تقاضا ہے کہ ریاست کے لوگوں کو مکمل آزادی ہو، تاکہ وہ اپنی مرضی سے اپنا نظامِ زندگی وضع کریں اور سیاسی غلامی کی وجہ سے جو دینی، نظریاتی، اخلاقی، تہذیبی اور لسانی بگاڑ پیدا ہو رہا ہے، اس سے بھی نجات پائیں اور اپنی اصل شناخت کے مطابق اپنی زندگی اور اپنا مستقبل تعمیر کرسکیں۔ صوبائی خودمختاری، 1953ء کا معاہدہ اور دستورہند کی دفعہ 370 بھی ان دونوں بنیادی ایشوز کا جواب نہیں اور 69 برسوں پر پھیلی ہوئی ناکام اور خون آشام تاریخ کو جزوی اور نمایشی معمولی تبدیلیوں کے ذریعے کشمیری عوام کے لیے قابلِ قبول نہیں بنایا جاسکتا۔8جولائی2016ء اس سیاسی حکمت عملی کے خلاف اعلانِ جہاد ہے اور آزادی اور اسلامی شناخت کی مکمل بحالی کے راستے کو روکنے کی جو کوشش بھی ہوگی، خواہ وہ دولت اور قوت کے کیسے ہی بے محابا استعمال سے عبارت ہو ، تحریکِ آزادی کا راستہ نہیں روک سکتی۔ اور اگر سیاسی، جمہوری اور عوامی راستوں کو بند کیا جائے گا تو پھر فطرت کا تقاضا اور تاریخ کا تجربہ ہے کہ لوہے کو کاٹنے کے لیے لوہا میدان میں آکر رہتا ہے۔
یہی وہ چیز ہے جس کی طرف شیخ عبداللہ کے صاحب زادے فاروق عبداللہ نے جنوری 2016ء میں ایک مضمون لکھ کر توجہ دلائی ہے۔ وہ ایک مدت تک جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں اور انھیں 1990ء میں اس وقت کان پکڑ کر نکال دیا گیا تھا جب 1987ء کے دھاندلی کے انتخابات کے نتیجے میں ریاست گیر عوامی تحریک نے سیلابی کیفیت اختیار کرلی تھی اور جمہوری راستوں کو بند کرنے کے نتیجے میں عسکری تحریک ابھری اور ایوانِ اقتدار کو متزلزل کرنے کا ذریعہ بنی۔ انھی فاروق عبداللہ صاحب نے کشمیر کے اخبارات میں اردو میں ایک مضمون لکھا ہے جسے پڑھ کر کلدیپ نائر صاحب نے سرپکڑ لیا ہے اور خون کے آنسو بہا رہے ہیں۔ کلدیپ نائر اپنے ایک مضمون ’پاکستان، بھارت اور کشمیر‘ میں جو پاکستان ٹوڈے میں 7 فروری2016ء کی اشاعت میں شائع ہوا ہے، لکھتے ہیں:
سری نگر کے ایک معروف اردو رسالے میں ایک مضمون میں فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ اس کے مرحوم باپ شیخ عبداللہ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ کشمیر کے نوجوان اپنے حقوق کے لیے بندوق اٹھا رہے ہیں۔
کلدیپ نائر نے سارا مضمون فاروق عبداللہ کو جھاڑ پلانے کے لیے وقف کر دیا ہے، اسے شیخ عبداللہ سے بے وفائی قرار دیا ہے۔ کشمیر کے ’صوفی اسلام‘ کے تصور سے بغاوت کہا ہے۔ شیخ عبداللہ کے سیکولرزم اور عالم گیریت کی شان میں قصیدے پڑھے ہیں اور اسے مشورہ دیا ہے کہ اسے عسکریت کے حق میں ایسی بات نہیں کہنی چاہیے تھی بلکہ دستورِہند کی دفعہ370 کے اندر خودمختاری پر سارا زور صرف کرنا چاہیے تھا۔ اس کا کہنا ہے:
وہ لوگ جو مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، اس لحاظ سے غلط ہیں کہ ریاست کشمیر کو دستور کی دفعہ 370 کے تحت خودمختاری حاصل ہے جس کے تحت صرف تین اْمور: دفاع، خارجہ اور مواصلات، کے علاوہ دستور کی دوسری دفعات جو حکومت کو اختیار دیتی ہیں ریاست جموں و کشمیر پر ان کا اطلاق ریاست کی دستور ساز اسمبلی کی مرضی سے ہوگا۔
فاروق عبداللہ نے قدوقامت کم کرنے کے لیے اسے کشمیر تک محدود کرنے کی کوشش کی۔ وہ نئی دہلی کو ریاست میں ایسے حالات پیدا کرنے پر ڈانٹ ڈپٹ کرتا رہا کہ کشمیری اپنے حق کے لیے بندوق اْٹھانے پر مجبور ہوگئے اس لیے کہ نئی دہلی اپنا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہا کہ مرکز کے پاس صرف تین امور ہوں گے: دفاع، امورِخارجہ اور مواصلات، جب کہ باقی ریاست کے اختیار میں ہوں گے۔
کلدیپ نائر اور دوسرے بھارتی دانش وروں کا سیاسی حل کا تصور کشمیری عوام کے لیے ناقابلِ قبول ہے اور آج بے وقت کی راگنی ہے۔ لیکن ہمارے لیے اصل اہم پہلو اس بحث کا یہ ہے کہ کلدیپ نائر جیسے لوگ بھی کھل کر یہ بات کہہ رہے ہیں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے۔ بھارتی دستور کے مطابق، جس پر کوئی عمل نہیں کر رہا اور جسے 1953ء ہی سے عملاً معطل کیا ہوا ہے، کشمیر پر بھارت کی حاکمیت (sovereignty)مکمل اور غیرمنقسم (absolute) نہیں بلکہ مشروط (conditional) ہے اور باقی تمام صوبوں سے مختلف ہے۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اگر بھارت نے ان شرائط کو توڑ دیا ہے تو وہ معاہدہ بھی پارہ پارہ ہوچکا ہے جس کے سہارے بھارت نے کشمیر پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی نوٹ کیے جانے کے لائق ہے کہ فاروق عبداللہ صاحب بھی آج دبے لفظوں میں وہی بات کہنے کی کوشش کررہے ہیں جو حریت کانفرنس اور حزب المجاہدین کہہ رہی ہیں یعنی___ بھارت کا قبضہ غیرقانونی ہے اور اس کے خلاف عوامی جدوجہد نہ صرف عوام کا حق بلکہ غلامی سے نجات کا واحد ذریعہ ہے اور مزاحمت کی اس تحریک کو اگر کچلنے کے لیے ریاستی قوت کا استعمال کیا جائے تو اس قوت کا مقابلہ کرنے کے لیے عوامی عسکریت بھی تحریکِ آزادی (Liberation War) کا حق ہے۔
فاروق عبداللہ کے صاحبزادے عمر عبداللہ نے جو خود بھی وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں، مجاہد برہان مظفر وانی کی شہادت پر جو الفاظ کہے ہیں وہ بھی نہ صرف تحریکِ مزاحمت اور تحریکِ آزادی کی صداقت اور افادیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے بلکہ بھارت کی حکومتی دہشت گردی کی پالیسی کی ناکامی کا اعتراف بھی ہے:
میرے الفاظ سن لو، برہان مظفر وانی کی قبر کے اندر سے جہادی بھرتی کرنے کی صلاحیت، اس کی سوشل میڈیا کے ذریعے بھرتی کرنے کی صلاحیت سے کہیں زیادہ ہوگی۔
کسے توقع تھی کہ شیخ عبداللہ کے صاحب زادے اور ان کے پوتے ایک دن یہ بات کہیں گے ع
ہاے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا!
بھارت کی معروف دانش ور ارون دھتی راے تو ایک مدت سے یہ بات کہہ رہی ہے کہ کشمیر میں بھارت کی حیثیت ایک قابض حکمران (force occupying) کی ہے اور جو جدوجہد ریاست میں ہورہی ہے وہ ایک قانونی اور جائز (legitimate) تحریکِ آزادی ہے اور جو اس کی تائید نہ کرے، وہ اخلاقی طور پر اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہا ہے۔ 2011ء میں ارون دھتی راے کی ایک کتاب Kashmir: The Case IV Freedom شائع ہوچکی ہے جس میں اس نے ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کے قبضے کو غیرقانونی اور غیراخلاقی قرار دیا ہے۔ بْرہان وانی کی شہادت کے بعد اس کا مضمون بھارت کے رسالے Outlook کی 23 جولائی 2016ء کی اشاعت میں شائع ہوا ہے۔ ہم اس کے چند اقتباسات نذرِ قارئین کرنا چاہتے ہیں:
کشمیر کے ’عوام‘ نے ایک دفعہ پھر واضح کر دیا ہے سال بہ سال، عشرہ بہ عشرہ، قبربہ قبر واضح کر دیا ہے کہ جو وہ چاہتے ہیں وہ آزادی ہے (’عوام‘ کا مطلب ان لوگوں سے نہیں ہے جو فوجی سنگینوں کے سایے میں کیے گئے انتخابات جیت گئے ہیں، اس کے معنی وہ لیڈر نہیں ہیں جنھیں اپنے گھروں میں چھپنا ہوتا ہے اور اس طرح کے حالات میں باہر آنے کی جرأت نہیں کرتے)۔
جب ہم مذمت کرتے ہیں، جیساکہ ہمیں کرنا چاہیے، سیکورٹی فورسز کی غیرمسلح احتجاج کرنے والوں پر گولی چلانے کی، ایمبولینسوں اور ہسپتالوں پر پولیس کے حملوں کی، اور چھرے والی بندوق سے نوعمروں کو نابینا بنانے کی، تو ہمیں دماغ میں یہ بات رکھنی چاہیے کہ حقیقی بحث کشمیر کی وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہی کی ہے۔
یہ خلاف ورزی جو بہت قبیح ہے، یہ ناگزیر اور لازمی نتیجہ ہے: عوام کی جدوجہدِ آزادی کو فوج کے ذریعے دبانے کا۔ کشمیری، قانون کی بالادستی قائم کرنے کے لیے نہیں لڑ رہے ہیں، اور نہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرنے کے لیے لڑرہے ہیں، وہ آزادی کے لیے لڑرہے ہیں۔ اس کے لیے وہ گولیوں کا مقابلہ پتھروں سے کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے لیے وہ بڑی تعداد میں مرنے کے لیے تیار ہیں اور کرفیو وغیرہ کی کھلی خلاف ورزی کرنے کے لیے بھی تیار ہیں جو خواہ انھیں موت کی طرف لے جائے، اور وہ دنیا کے سب سے زیادہ فوجی علاقے میں ہرطرح کی قیدوبند کے لیے بھی تیار ہیں۔ اس کے لیے وہ ہتھیار اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ موت تک سے لڑنے کے لیے بھی تیار ہیں یہ اچھی طرح جانتے ہوئے کہ نوجوان ہی مریں گے۔ انھوں نے یہ بات نہایت باقاعدگی سے ثابت کی ہے۔ اس کا وہ مستقل مزاجی سے مظاہرہ کررہے ہیں۔
یہ پیش گوئی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ بھارتی حکومت کو مستقل امن عامہ کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو ایک چھوٹا سا گروہ پیدا کر رہا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک خطرناک بڑھتا ہوا بحران ہے جس پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ ایک ایسے علاقے میں جو دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ہے۔ صرف اس وجہ سے ہی اسے پوری دنیا کا مسئلہ ہونا چاہیے۔
اگر ہم بحران کو واقعی حل کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم قتل کرنے اور مارنے کے نہ ختم ہونے والے چکر کو واقعی ختم کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم خون بہنے کو روکنا چاہتے ہیں، تو پہلا قدم یہ ہوگا کہ ہم دیانت داری کی طرف قدم بڑھائیں۔ہمیں ایک دیانت دارانہ گفت و شنید کرنا ہوگی۔ ہمارا نقطۂ نظر کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو، ایک دوسرے کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں، اس گفتگو کا موضوع آزادی کو ہونا ہے۔ کشمیریوں کے لیے آزادی کا ٹھیک ٹھیک مسئلہ کیا ہے؟ اس پر بحث کیوں نہیں ہوسکتی؟ نقشے کب سے اتنے مقدس ہوگئے ہیں؟ کیا کچھ لوگوں کے حق خودارادیت کا کسی بھی قیمت پر انکار کیا جاسکتا ہے؟ کیا بھارت کے عوام اس کے لیے تیار ہیں کہ ہزاروں آدمیوں کے خون کا بوجھ اپنے ضمیر پرلیں؟ اگر ہم اس کو نگلنے کے لیے تیار ہیں تو پھر ہم جن ہولناک مظالم سے دوچار ہیں ان کا کیا اخلاقی جواز ہوگا؟ کیا بھارت میں کشمیر پر اتفاق راے حقیقی ہے یا خودساختہ ہے؟ کیا یہ وزن رکھتا ہے؟ اصل تو یہ ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اصل بات یہ ہے کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں اور کس طرح ایک پرامن، جمہوری اور معلوم نظریے تک پہنچا جائے۔
یہ آوازیں بدلتے ہوئے حالات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں اور اس امید کو قوی تر کر رہی ہیں کہ استبداد کے نظام کے خلاف جدوجہد میں اعوان و انصار ایسے مقامات سے بھی مل سکتے ہیں جہاں سے گمان بھی نہیں تھا۔ حالات کو بدلنا اور بدلتے ہوئے حالات سے فائدہ اٹھانا ہی صحیح سیاسی حکمت عملی ہوسکتے ہیں۔
اس سلسلے میں ہم بھارت کے مؤقر جریدے اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی کے ادارتی نوٹ (16 جون 2016ء) کو بھی بڑی اہمیت دیتے ہیں جس کے بغور تجزیے کی ضرورت ہے۔ دو باتیں ایسی ہیں جن پر مذکورہ جریدے نے غور کرنے کی خصوصی دعوت دی ہے: ایک یہ کہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کے مقامی (indigenous) ہونے کا اعتراف اور پورے معاملے کو پاکستان کی ’ریشہ دوانی‘ قرار دینے کی بھارتی پالیسی پر تحفظات کا اظہار۔ یہ چیز دوسرے ادارتی نوٹس اور مضامین میں بھی اب آرہی ہے۔ دوسری چیز یہ کہ ’آزادی‘ کے مطالبے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ سیاسی حل اس ایشو کا سامنا کیے بغیر ممکن نہیں اور لازماً فیصلہ وہی غالب آسکے گا جسے کشمیری عوام کی تائید حاصل ہوگی۔ جمہوری حل (Democratic Solution) کے معنی محض سیاسی اصلاحات نہیں بلکہ پورے مستقبل کے نظام کے بارے میں کشمیری عوام کی راے کو معلوم کرنا اس کے لیے ضروری ہوگا۔ یہ غالباً پہلی مرتبہ ہے کہ مؤقر قومی جریدے میں اس حوالے سے ریفرنڈم کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ یہ بہت ہی اہم آغاز ہوسکتا ہے۔