پاکستان 14 اگست 1947ء کو ماہ رمضان میں وجود میں آیا۔ رمضان اور پاکستان کا باہم ملاپ بہت انوکھا ہے۔ اس لیے کہ پاکستان کو مسلمان قوم کی ایک الگ شناخت کے طور پر حاصل کیا گیا اور 27 ویں رات میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ تحفہ عطا کیا کیونکہ یہ ایک کلمے کی بنیاد پر جدوجہد کا نام تھا، ہر ایک کی زبان پر ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ‘‘ تھا۔ اس منزل کے حصول کے لیے کیا کیا قربانیاں دینی پڑیں، یہ صرف وہی جان سکتے ہیں، جنہوں نے ان حالات کا سامنا کیا۔ ذرا سوچیے کہ موجودہ پاکستان کیا وہی مملکت خدا داد ہے جس کے حصول کی خاطر جان و مال کی قربانیاں دی گئیں۔ یہ وطن اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا تو آج کیوں مسلمان یہاں اس ملک میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں؟ اسلامی تعلیمات اور قرآن پر عمل کہاں چلا گیا؟ جس نام پر یہ ملک حاصل کیا گیا وہ مقصد کہاں ہے؟ لگتا ہے جیسے آج ہر شخص اپنی ذمے داریوں سے آزادی چاہتا ہے۔ اپنے دین اسلام کے قانون و ضوابط سے آج آزادی ہر چیز سے چاہیے، ساری اقدار سے چاہیے ہمارے مذہب نے جو پابندیاں لگائی ہیں، ان سے آزادی۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر کوئی خود اپنا احتساب کرے ،دوسروں کی غلطی کی طرف اشارے کرنے سے پہلے اپنی طرف دیکھے اور خود کو ہر عمل میں خالص کرلے یہی ایک طریقہ ہے جس سے ہم خود کو سنوار سکتے اوراپنے ملک و قوم، اپنے بچوں کا مستقبل بچا سکتے ہیں۔ اپنے اعمال کو قرآن و سنت کے مطابق خالص کریں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اتنی اچھی کتاب دی ہے جو ہر گھر میں موجود ہے یعنی قرآن مجید ۔ اس کو کھول کر سمجھنے کا وقت نکالیں۔
(قراۃ العین فیصل، نارتھ ناظم آباد کراچی)