نائن زیرو کھلوانے کے حربے

200

ایم کیو ایم کے ایک دوست ہمیں ٹیلیفون پر بتا رہے تھے کہ نائن زیرو بند ہونے سے ہم بڑی مشکل میں ہیں کوئی مرکزی دفتر ہمارے پاس نہیں رہا۔ نائن زیرو میں مواصلات کا جدید ترین سسٹم موجود ہے جس کے ذریعے ہم لندن سکریٹریٹ سے براہ راست رابطے میں رہتے ہیں۔ الطاف بھائی نائن زیرو بند ہونے سے بہت زیادہ ڈسٹرب ہیں۔ انہوں نے فاروق بھائی کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنے تمام اثرورسوخ کو کام میں لائیں اور تمام ضروری اقدامات کریں۔ پارٹی کے پرچم سے الطاف بھائی کی تصویر ہٹانے اور اس سال قائد کی سالگرہ نہ منانے کا فیصلہ بھی لندن سے آیا ہے تاکہ یہ تاثر قائم ہو کہ بھائی فاروق ستار کی قیادت میں ایم کیو ایم آزادانہ فیصلے کر رہی ہے اور اس نے لندن سے آزادی حاصل کر لی ہے۔ ہمارے دوست کا کہنا تھا کہ بھائی فاروق ستار بہت سوجھ بوجھ سے کام لے رہے ہیں وہ ابتداء ہی سے ایم کیو ایم سے وابستہ ہیں انہوں نے اچھے دن بھی دیکھے ہیں اور برے دن بھی لیکن یہ برے دن جواب گزر رہے ہیں زیادہ مشکل ہیں کیوں کہ ان کی کسی بات پر اعتبار نہیں کیا جا رہا۔جو لوگ فاروق بھائی کو جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ وہ قائد کی مرضی کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ لندن سکریٹریٹ انہیں قدم قدم پر گائیڈ کر رہا ہے ان سے کہا گیا ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں مذمتی قرار داد کی حمایت کریں بلکہ خود بھی مذمتی قرارداد پیش کر دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ الطاف بھائی کی معافی قبول کرنے اور انہیں صفائی کا موقع دینے کی بات بھی کریں۔ فاروق بھائی اس حکمت عملی پر عمل کر رہے ہیں حکام سے ان کا رابطہ ہے وہ انہیں یہ یقین دلانے میں مصروف ہیں کہ ایم کیو ایم کی باگ ڈور اب ان کے ساتھ میں ہے اور وہ صوبائی یا وفاقی حکومت کے لیے کسی پریشانی کا سبب نہیں بنیں گے بس اتنی رعایت کی جائے کہ نائن زیرو کھول دیا جائے۔
بعض دوست کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کا مرکزی ٹھکانا نہ ہونے کی وجہ سے ایم کیو ایم کے کارکنوں نے فاروق ستار کے گھر پر یلغار کر رکھی ہے جس کی وجہ سے ان کی والدہ زیادہ پریشان ہیں اور وہ کارکنوں کو ڈانٹنے کے علاوہ اپنے بیٹے پر بھی غصہ اتار رہی ہیں۔ فی الحال کارکنوں کے لیے نیا ٹھکانا مشکل ہے۔ اس لیے فاروق ستار کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح نائن زیرو کھل جائے اور ایم کیو ایم کے کارکن ان کے گھر کا محاصرہ کرنے کے بجائے نائن زیرو میں بیٹھے نظر آئیں جہاں انہیں آسانی سے ہدایت بھی دی جا سکتی ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ کراچی آپریشن کے دوران نائن زیرو پر بڑا سنسنی خیز چھاپا مارا جا چکا ہے اس چھاپے میں متعدد ٹارگٹ کلرز پکڑے گئے تھے جنہوں نے نائن زیرو میں پناہ لے رکھی تھی جب کہ بھاری تعداد میں اسلحہ بھی برآمد ہوا تھا لیکن اس کے باوجود نائن زیرو سیل نہیں کیا گیا تھا اور ایم کیو ایم نے تمام تر پکڑ دھکڑ کے باوجود اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھی تھیں اور نائن زیرو بدستور کھلا رہا تھا لیکن اب کی دفعہ نائن زیرو کو سربمہر کر کے حکومت نے بظاہر یہ تاثر دیا ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی میں سنجیدہ ہے اور اس معاملے کو نمٹانا چاہتی ہے البتہ ایم کیو ایم کے دوستوں کا کہنا ہے کہ حکومت تو نائن زیرو کو بند نہیں کرنا چاہتی تھی، یہ رینجرز نے پھرتی دکھائی ہے اور اسے عسکری قیادت کی طرف سے اشارہ ملا ہے اس لیے اب نائن زیرو کا کھلنا آسان نہیں رہا۔ رینجرز سرکاری زمینوں اور پبلک مقامات پر قائم ایم کیو ایم کے دفاتر بھی مسمار کر رہے ہیں اس کی ذمے داری وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے قبول کی ہے اور کہا ہے کہ یہ دفاتر ان کے حکم سے مسمار کیے جارہے ہیں۔ ایک باوثوق ذریعے نے بتایا ہے کہ الطاف حسین نے زرداری سے رابطہ کیا ہے اور ان سے پوچھا ہے کہ تمہاری عملداری میں یہ کیا ہو رہا ہے اگر تمہارے وزیراعلی کا بس نہیں چلتا تو کم از کم اسے لا تعلق رہنا چاہیے ورنہ کل تم پر افتاد پڑی تو ہم بھی تمہارا ساتھ نہیں دیں گے۔ سنا ہے کہ الطاف حسین کی اس گفتگو کے بعد زرداری نے وزیراعلی کو مشاورت کے لیے طلب کر لیا ہے۔
اس ہلے گلے میں ایم کیو ایم کے نامزد میئر کراچی وسیم اختر نے جیل سے آکر اپنے منصب کا حلف بھی اٹھالیا ہے یہ صاحب 12 مئی 2007 کے قتل عام کے مقدمے میں مرکزی ملزم کی حیثیت سے ماخوذ ہیں۔ اور ان دنوں جیل کی ہوا کھا رہے ہیں وہ اپنے ایک بیان میں اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ انہوں نے قائد کی ہدایت پر کارکنوں کو فائرنگ کا حکم دیا تھا۔ قارئین جانتے ہیں کہ وسیم اختر ان دنوں صوبائی حکومت میں وزیرداخلہ تھے اور کراچی میں امن وامان کی ذمے داری ان کی تھی۔12 مئی 2007 کو اس وقت کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس افتخار چودھری کراچی بار ایسوسی ایشن کی دعوت پر بار کے اجلاس سے خطاب کے لیے کراچی پہنچے تو قائد نے لندن سے حکم صادر فرمایا کہ جسٹس افتخار چودھری کو ایرپورٹ سے باہر نہ نکلنے دیا جائے خواہ اس کے لیے خون کا دریا ہی کیوں نہ بہانا پڑے چناچہ وسیم اختر نے حکم کی تعمیل کی اور ایم کیو ایم کے کارکنوں کو خون بہانے کا حکم دیدیا 12 مئی 2007 کو پورا دن کراچی میں گولیاں چلتی رہیں اور کراچی کے شہری جو جسٹس افتخار چودھری کے استقبال کے لیے ایر پورٹ جانا چاہتے تھے گولیاں کھا کھا کر سڑکوں پر گرتے رہے۔ شام کو جب یہ مشن مکمل ہو گیا تو ملک کے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے بھی وسیم اختر کو مبارکباد دی اور اسلام آباد میں ہاتھ لہرا کر اسے عوامی طاقت کا مظاہرہ قرار دیا۔ اب یہی صاحب کراچی کے میئر ہیں اور ڈاکٹر فاروق ستار نے تجویز پیش کی ہے کہ اگر وسیم اختر کو جیل میں رکھنا ضروری ہے تو ان کے گھر کو سب جیل قرار دے کر انہیں گھر منتقل کر دیا جائے تاکہ وہ اپنے گھر میں میئر کا دفتر قائم کر کے کراچی کا نظام چلا سکیں۔ کیا کہتے ہیں ماہرین قانون بیچ اس مسئلے کے؟ کیا کسی اقراری مجرم کو میئر کے منصب پر فائز رہنے کا حق ہے؟ اگر ایک مجرم میئر بن سکتا ہے تو نائن زیرو کھولنے میں کیا حرج ہے!