قربانی کی کھالیں خراب کرنے کا منصوبہ

515

پاکستان کی اہم صنعت جسے چمڑے کی صنعت بھی کہا جاتا ہے اس کا بہت بڑا دارومدار پاکستان میں قربانی کے جانوروں کی کھالوں پر بھی ہے۔ چونکہ قربانی کے موقع پر عام دنوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ جانور قربان کیے جاتے ہیں اس لیے ان کی کھالوں کو محفوظ بنا کر ٹینریز تک پہنچانا بھی ایک اہم عمل ہے۔ 1960 کے عشرے تک قربانی کی بہت سی کھالیں ضائع ہوتی تھیں۔ جماعت اسلامی کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے ان کھالوں کا مصرف بھی بتایا ان کو محفوظ کرنے اور ان کو جمع کر کے ٹینریز تک پہنچانے کے لیے اپنے کارکنوں کو ہدایت بھی دی اس کے بعد سے جماعت اسلامی کے علاوہ بھی دوسرے بہت سے ادارے یہ کام کرنے لگے۔ کراچی جیسے شہر میں اب بھی ملک بھر سے زیادہ قربانی ہوتی ہے اور یہاں ٹینریز موجود ہونے کے سبب ان جانوروں کی کھالیں جلد اور زیادہ محفوظ طریقے سے ٹینریز تک پہنچائی جاسکتی ہیں ۔ لیکن ایک خبر کے مطابق سندھ حکومت نے قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے حوالے سے ایک ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے جس کی رو سے کھالوں کے لیے کیمپ لگانے، گھر گھر جا کر جمع کرنے اور گاڑی میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اعلان کر کے کھالیں مانگنے پر پابند ی ہوگی۔ تمام حکومتوں میں ایسے عناصر موجود ہوتے ہیں جو حقائق سے بالکل لاعلم ہوتے ہیں ۔ اگر یہ پابندی اسی طرح نافذ ہوگئی تو کھال کس طرح محفوظ رہے گی نہ تو قربانی کرنے والا خود اس کو الٹ پلٹ کر نمک لگائے گا۔ نہ وہ اپنے ہاتھ میں اٹھا کر یا گاڑی میں رکھ کر کسی جگہ پہنچائے گا۔ اور جو لوگ یہ کام رضا کارانہ کرتے تھے ان پر پابندی لگا دی جائے گی تو ہزاروں کھالیں خراب ہونے کا امکان ہے ۔ یہ نا اہل اور خوفزدہ حکمران کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرتے۔ اگر انہیں خدشہ ہے کہ متحدہ کھالیں جمع کرے گی یا اس کے لوگ کھالیں چھینیں گے تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ نہ کہ پاکستان کی اہم صنعت کو تباہ کرنے والے کام کیے جائیں۔ اسی طرح گزشتہ برس الخدمت کی کھالیں محض اس لیے ضبط کرلی گئی تھیں کہ کھالیں لے جانے والی گاڑی والے کے پاس شاید کوئی کاغذ کم تھا ۔ حکومت کو عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔ اگر اس کے پاس ہے تو ۔۔۔۔