غیرت ۔۔۔ قومی غیرت، ملی غیرت، دینی غیرت، خاندانی غیرت اور ذاتی غیرت وغیرہ کے نام سے ’’غیرت‘‘ کا جس طرح سے اظہار کیا جاتا ہے یہ مسلم معاشرے کے اندر انتہائی ضروری خیال کیا جانے والا ایک ایسا فطری انسانی جذبہ ہے کہ جس کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ دنیا کے تمام مذاہب اور عقائد سمیت قومی آزادی کے لیے چلنے والی تحریکوں اور آزادی پر قربان ہونے والی اقوام کے اندر بھی غیرت ہی کا جذبہ بدرجہ اتم پایا جاتا ہے یہ وہی جذبہ ہے کہ اس سے اگر کوئی قوم، قبیلہ یا فرد الگ ہو جائے تو وہ اپنے ذاتی وقار، خاندانی عزت اور قومی غیرت سے محروم ہو جائے گا جب کہ دینی غیرت یا مذہبی وابستگی میں بھی غیرت کے جذبات کا موجود ہونا اولین ضرورت اور شرط ہے۔
اسلام اور غیر اسلام کے درمیان یوں تو صدیوں معرکہ جاری ہے۔ تہذیبی کشمکش اور ثقافتی رسم و رواج نے عرب کے صحراؤں سے لیکر جدید یورپ کے بازاروں اور یونیورسٹیوں تک ہر جگہ اپنے فکر وعمل کی علیحدہ شناخت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے تاہم نظریات اور تہذیب کا یہ اختلاف جو ایک حد تک فطری اور قابل برداشت تھا اس وقت نا قابل برداشت صورت اختیار کرنے لگا کہ جب مغربی تہذیب اور کلچر کو زبردستی اسلامی تہذیب پر بالا دست اور مسلط کرنے کی کوششیں شروع کر دی گئیں۔ خدا کے خوف سے خالی اخلاقیات سے عاری اور فحاشی و عریانی میں غرق ثقافتی یلغار نے مسلم ممالک اور اسلامی معاشرے کو مغرب زدہ کلچر کے رنگ میں رنگ دینے کی بھر پور کوشش کی جو ایک حد تک کامیاب بھی رہی جب کہ اسلام مخالف قوتوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کو کچلنے کے لیے فوجی قوت کے بے رحم استعمال سے بھی کام لیا۔ آج کا افغانستان، عراق، شام، فلسطین، مقبوضہ کشمیر، چیچنیا اور برما سمیت تمام عالم اسلام کو جس داخلی کشمکش اور بیرونی جارحیت سے دور چار کردیا گیا ہے یہ سب کچھ مغربی قوتوں، ان کے اتحادیوں اور اسلام مخالف طبقے کے ان ناپاک عزائم ہی کی وجہ سے ہے کہ جس میں مسلم معاشرے اور اسلامی ممالک کو ایک ساتھ نشانے پر رکھا گیا ہے۔ مغرب کی لادین قوتیں ہمارے مذہب، کلچر، روایات اور عقائد سمیت ہماری تاریخ، جغرافیے اور تہذیب پر کس طرح سے حملہ آور تھیں ان کی تفصیلات سے ہر کوئی آگاہ ہے تاہم سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ مسلم ممالک کے شہر اور بازاروں کو کارپٹ بمباری سے جس طرح تباہ و برباد کیا جا رہا ہے اس سے کہیں زیادہ خطرناک وہ حملے تھے جن کے ذریعے مسلمانوں کی ’’غیرت‘‘ کو نیلام اور بد نام کیا جارہا ہے۔ اینٹ اور سیمنٹ سے بنے ہوئے مکانات تباہ ہونے کے بعد دوبارہ تعمیر ہو سکتے ہیں لیکن شرم وحیا اور غیرت سے خالی ہوجانے والا معاشرہ واپس کس طرح سے اپنے وجود کو محسوس کراپائے گا، یہ ایک بہت مشکل صورت حال ہے۔
مغربی اقوام نے ترقی اور ذلت کا دو عرفہ سفر جس اطمینان کے ساتھ کیا ہے یہ انہی کا منفرد اعزاز ہے تاہم کوئی بھی غیرت مند اور عقل مند قوم صاف ستھرے لباس کے ساتھ گندگی کا ٹوکرہ سر پر اٹھا کر نہیں چل سکتی ۔۔۔ ترقی سب کو عزیز ہے اور ترقی و خوشحالی کے لیے سب ہی رواں دواں ہیں مگر یہ کیسی ترقی ہے کہ جس میں مرد کو حوالدار اور عورت کو اشتہار بنا دیا گیا ہو، جہاں اسقاط حمل کے لیے مظاہرے اور غیر مرد کے ساتھ رات گزارنے کے لیے گھر کے دروازے پر شمع جلائی جاتی ہو، جہاں گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کا بڑے فخر کے ساتھ اپنے والدین کے ساتھ تعارف کرایا جاتا ہو، جہاں موبائل فون کی اسکرین پر کوئی دوسرے کے بیڈروم میں جھانک سکتا ہو، جہاں جنسی تعلقات قائم کرنے کے لیے خون کے رشتوں کے احترام کی کوئی تمیز نہ ہو، جہاں بردہ فروشی اور جسم فروشی کو ضرورت اور تسکین کہا جاتا ہو، جہاں فحاشی اور بے حیائی کے منظر کو فلمانے اور دکھانے کے لیے نام نہاد ترقی یافتہ طبقہ عینک لگائے کام کررہا ہو کہ کہیں کوئی دل کش منظر باقی نہ رہ جائے، جہاں حجاب پہننے کو منع اور اسکرٹ چھوٹا کرنے کے لیے کہا جاتا ہو، جہاں ہم جنس پرستی کی لعنت کو قانونی تحفظ دینے کے لیے شادی کرنے کی اجازت دی جاتی ہو، جہاں اسکول کی بچیوں کو جنسی تعلیم دے کر قبل ازوقت بالغ اور بوڑھوں کو جنسی اشتعال کی دوائیں دیکر جوان بنایا جاتا ہو ۔۔۔ اس طرح کی ترقی سے کوئی بھی معاشرہ ترقی یافتہ یا مہذب نہیں کہلوا سکتا بلکہ یہ تو بے راہ روی اور بے حسی کا ایک ایسا سیلاب ہے کہ جس میں جھاڑ جھنکار کے ساتھ گلاب بھی بہہ جائے گے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مسلم ممالک اور اسلامی معاشرے کو جس طرح سے مغرب کی تہذیبی اور ثقافتی یلغار کا سامنا ہے وہ بہت زیادہ تشویش ناک ہے بالخصوص پاکستان کے مسلم معاشرے کو فحاشی اور بے حیائی میں ڈوبی مغربی تہذیب کے آلہ کاروں نے نشانے پر لے رکھا ہے۔ ’’غیرت‘‘ کے نام پر ہونے والے قتل کو بے غیرتی کہا جارہا ہے ایسا ہی ایک بیان برطانیہ کی نو منتخب وزیراعظم صاحبہ نے بھی داغا ہے۔
(باقی صفحہ 9پر)