پیشگی معذرت کے ساتھ ایک ایسے مسئلے پر قلم اٹھا رہا ہوں، جس پر کئی اعتراضات ہو سکتے ہیں، لوگ ناراض بھی ہوسکتے ہیں، لیکن جس کو ناراض ہونا ہے، ہوجائے ،جس کو اعتراض کرنا ہے، اعتراض کرے، یہ پاکستان کسی فرد کا نہیں، یہ ہم سب کا وطن ہے۔ اس کی ہر چیز کی حفاظت میری اور آپ سب کی ذمے داری ہے، ہمیں ہر چیز کادھیان رکھنا ہو گا کہ ہم کیا کررہے ہیں اور کس جانب جارہے ہیں؟ کہیں ہم اندھی عقیدت میں کوئی ایسا کام تو نہیں کررہے ہیں جس سے مملکت کی روح مجروح ہورہی ہو ۔
حال ہی میں ہم سب نے جشن آزادی منایا اور انتہائی جوش اور جذبے سے منایا ۔پاکستان کے رہنے والے بالعموم اور کراچی کے رہنے والے، بالخصوص، خوشی کا اظہار کررہے تھے کہ ان کو ایک تو پاکستان کی آزادی کی خوشی تھی اور ایک کراچی کی آزادی کی خوشی تھی کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے کراچی پر خوف کے بادل چھائے ہوئے تھے، ایسے میں عوام نے ایک دوسرے سے بڑھ کر جشن آزادی منانے کی کوشش کی۔ ہر گلی محلے میں جشن نے ایک سماں باندھ دیا تھا بچے جوان بوڑھے خواتین سب نے ایسی تیاریاں کی تھیں کہ عید کامنظر تھا ۔ کاروباری حضرات نے بھی اس موقع سے خوب خوب فائدہ حاصل کیا اور ایک محتاط اندازے کے مطابق 10ارب روپے سے زائد کی خریداری کی گئی ۔بہت ہی اچھی بات ہے ہم سب کو خوش ہونا چاہیے، لیکن ایسے میں مجھے جس چیز نے دکھ پہنچایا شاید وہ کسی کے لیے دکھ کا باعث نہ بنی ہو ،مجھے دکھ پہنچانے والے وہ کیک تھے، جو جشن آزادی پر کاٹے گئے ۔کیک کاٹنا کوئی بری بات نہیں، یہ ایک روایت بن چکی ہے، کس کی روایت ہے ،کہاں سے آئی ہے، کب آئی ہے، کون لایا؟مجھے اس پر بات نہیں کرنی ہے میں تو ایک خاص مسئلے کی جانب توجہ
دلانے کی کوشش کررہا ہوں ۔ ان کیکوں کو بڑے اہتما م سے سجایا گیا تھا بڑی محنت سے تیار کیا گیا تھا، خصوصی طور پر اس پر قومی پرچم کے رنگ لگائے گئے تھے بلکہ باقاعدہ طور پر چاند ستارے کے ساتھ قومی پر چم تیار کیا گیا تھا ۔ ملک کی بڑی بڑی سرکاری و غیر سرکاری تقریبات میں ان کیکوں کو مختلف سائز میں تیار کرکے لایا گیا اور پھر وہی لوگ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے وطن سے پیار ہے، ہمیں اس سبز ہلالی پرچم سے محبت ہے، وہی اس پر چم کو بڑی بے دردی سے کاٹ رہے تھے، اس کے ٹکڑے کرکے بڑے مزے سے کھا رہے تھے۔ گویا سب مل کر پاکستان کو کھار ہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان کو مل کر کھانے پر سب کا اتفاق ہوچکاہے۔ خواہ وہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے تھے یا حکومت سے ، سیاسی جماعتیں تھیں یا دینی، لسانی پارٹیاں تھیںیا فلاحی تنظیمیں سب نے ایسے کیک تیار کیے اور اپنے ہی ہاتھوں اس پر چھری بھی چلائی، شاید ایک لمحے کے لیے بھی کسی کو یہ خیال نہیں آیا ہوگا کہ ہم تو اپنے ہی ہاتھوں اپنے پر چم کے حصے بخرے کررہے ہیں، کیا یہ توہین نہیں ہے؟ اس مقدس پرچم کی جس کو روزانہ واہگہ بارڈر پر موجوددھرتی کے جوان ہاتھوں میں مقدس کتاب کی طرح محفوظ کرتے ہیں اور کھولتے ہیں ۔
اس مرتبہ سب سے منفرد اور خوش آئند بات یہ دیکھنے میں آئی کہ بڑی تعداد میں دینی مدارس نے جشن آزادی کو بھرپور طریقے سے منایا،اور کئی ایک مدارس نے باقاعدہ اہتمام کرکے اس کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیں ۔حالانکہ دینی مدارس میں جہاں صبح کا آغا ز کسی اسمبلی سے کرنے کا رواج اور قومی ترانہ پڑھنے کی روایت تک موجود نہیں ہے ،نہ ان اداروں میں اپنے اپنے مذہبی جھنڈوں کے علاوہ کوئی اور جھنڈا لہرانے کی روایت ہے لیکن اس مرتبہ سب نے یک جان ہوکر اپنے اپنے اداروں میں قومی پرچم بھی
لہرایا، قومی ترانہ اور دیگر ملی نغمے بھی سنائے۔ اس میں خصوصی طور پر دارالعلوم کراچی کی تقریب قابل دید تھی ، باقاعدہ پریڈ کی گئی اور طلبہ نے مختلف ٹیبلوز اور کرتبوں کا مظاہرہ کیا۔ اس موقعے پر مفتی اعظم پاکستان جسٹس ریٹائرڈ مفتی تقی عثمانی صاحب کی یوم آزادی پر جامع تقریر اور پیغام سب کے لیے خوش آئند تھا ۔
وطن کی قدر کریں