یوم آزادی کی تقریب اور بے حجابی

146

14 اگست کو ایوان صدر میں رنگا رنگ تقریب ہوئی قرآن پاک کی تلاوت و ترجمہ حمدو ثنا کے بعد صدر ممنون حسین صاحب کی تقریر کے بعد ملی نغموں کا سلسلہ شروع ہوا، اس میں لڑکے اور لڑکیوں نے گلو کاروں کا خوب ساتھ دیا ساری لڑکیوں نے سفید رنگ کے شلوار قیمض کے ساتھ ہرے رنگ کی کوٹی جیکٹ پہنی تھی، مگر کسی بھی لڑکی کے سر پر ڈوپٹا تو کجا گلے میں بھی نہیں تھا صرف پروگرام کی میزبان فرح کے گلے میں تھااور اس نے بھی قرآن کی تلاوت کے وقت سر پر ڈال لیا تھا۔
یہ اتنا اہم موقع تھا۔ جب ساری دنیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے یوم آزادی کی تقریب دیکھ رہی تھی۔ پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز اور میڈیا کی خواتین سے ڈوپٹا گلے سے بھی غائب ہے۔ اس دن ہم نے یہ وطن جو کلمے کے نام پر حاصل کیا تھا۔ جہاں کا قانون قرآن و سنت کی روشنی میں بنایا گیا تھا اور قرآن میں لکھا ہے کہ ’’اے نبیؐ اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں۔ تاکہ وہ پہنچانی جائیں اور ستائی اس سے یہ واضح ہے کہ مومن اور مسلمان عورت کی پہچان پردہ ہے۔‘‘ وزیراعظم اور صدر پاکستان کے سامنے یہ ہو رہا تھا ان کی فوری ایکشن لینا چاہیے تھا کہ یہ ان کی ذمے داری ہے۔ سعودی عرب میں تو خواتین عبایا پہنتی ہیں مگر باقی مسلم ممالک میں حجاب استعمال کرتی ہیں۔ پورا پردہ نہ سہی پھر بھی حجاب کا تصور تو باقی ہے۔ ضیاء الحق کے دور میں نیوز کاسٹر خواتین کے سروں پر ڈوپٹا ہوتا تھا، گو کہ یہ اللہ کے خوف سے نہیں حکمران کے ڈر سے تھا۔ آج کے صدر اور وزیراعظم کیا تاریخ رقم کرنا چاہتے ہیں۔
صبا احمد کراچی