پاکستان کی سیاسی تاریخ کا انوکھا واقعہ کہ سیاسی جماعت نے اپنے ہی قائد اور بانی کے خلاف پارلیمنٹ میں قرار داد پیش کردی۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا دوسرا واقعہ ہے کہ ماضی میں شیخ مجیب الرحمن مرحوم نے بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ایجنٹ بن کر پاکستان کو دولخت کروایا۔ آج اسی طرح کا کردار الطاف حسین ادا کر رہے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے 22 ارکان قومی اسمبلی، 50 ارکان صوبائی اسمبلی اور 8 سینیٹر ہیں۔ یعنی ان کی کل تعداد 88 ہے۔ ایم کیو ایم کے ارکان پارلیمنٹ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ اپنی جماعت کے آئین میں تبدیلی کے باوجود الطاف حسین کے لیے اٹھائے گئے حلف کی مکمل پاس داری کرتے رہیں گے۔۔۔ ذرا اس جماعت کے عوامی نمائندوں کا حلف نامہ ملا حظہ فرمائیں۔۔۔
اس کا خلاصہ کچھ اس طرح سے ہے:
’’میں اس بات کا حلفیہ اور قسمیہ اقرار کرتا ہوں کہ میری کوئی ذاتی حیثیت یا قابلیت نہیں بلکہ عوام نے مجھے قائد تحریک الطاف کی وجہ سے ووٹ دیکر منتخب کیا۔ میں اپنی سوچ اور خیالات پر الطاف حسین کے فکروفلسفے کو ترجیح دوں گا۔ اگر کوئی متنازع بات ہو جاتی ہے اور میرے خیالات قائد تحریک سے متصادم ہو جاتے ہیں تو اس میں آخری فیصلہ الطاف حسین کا ہوگا۔ جو مجھے تسلیم ہوگا۔‘‘
الطاف حسین کے پاکستان مخالف خیالات اور پھر دشمن ملک بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے ساتھ وابستگی کے بعد ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے؟ قومی اسمبلی میں قرار داد ضرور لائی گئی ہے فاروق ستار نے اپنی جماعت کے آئین میں ترمیم کرکے الطاف حسین کی ویٹو پاور ختم کرنے کی بھی بات کی ہے لیکن ابھی تک ایم کیو ایم کے کسی رکن اسمبلی کی جانب سے الطاف حسین کے خلاف یہ نہیں کہا گیا کہ قائد تحریک غداری کے مرتکب ہوئے ہیں اور ہم ان سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کرتے ہیں، لندن میں ایم کیو ایم کا مرکزی سیکرٹریٹ برابر کام کر رہا ہے ندیم نصرت، واسع جلیل اور مصطفی عزیز آبادی اپنی سر گرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ذرا 19 دسمبر 2015ء جناح گراؤنڈ کراچی میں بلدیاتی نمائندوں کی حلف برداری کی تقریب پر نظر دوڑائیں کہ اس تقریب میں فاروق ستار نے خود جو حلف نامہ پڑھ کر ان بلدیاتی نمائندوں سے حلف لیا تھا اس کے کیا الفاظ تھے؟ کہ ہم اور ہمارے عوامی نمائندے قائد تحریک کے نقش قدم پر چلیں گے۔ دوسری جانب لندن سے امریکا، جنوبی، افریقا، جرمنی اور کینیڈا کے علاوہ دیگر ممالک میں ایم کیو ایم کے سمندر پار یونٹوں سے ٹیلی فونک خطاب میں الطاف حسین پاکستان کے خلاف زہر اگل رہے ہیں واسع جلیل اور مصطفی عزیز آبادی کے ٹوٹیس نے ثابت کردیا ہے کہ الطاف حسین پاکستان میں ایم کیو ایم کے سے مسلسل رابطے میں ہیں اور فاروق ستار اسی ایجنڈے کے تحت اپنی جماعت کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں جو لندن سے دی جاتی ہے۔
برطانوی حکومت کو حکومت پاکستان کی جانب سے بھیجا گیا ریفرنس یہاں لندن میں قانونی ماہرین کی نظر میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا کسی قسم کی قانونی کارروائی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق یہ ریفرنس برطانوی پراسیکیوشن کے تقاضے پورے ہی نہیں کرتا اس پر کارروائی کس طرح ہوسکتی ہے۔ برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے رکن لارڈ نذیر احمد کے علاوہ برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین جن میں یاسمین قریشی، ناز شاہ اور خالد محمود شامل ہیں ان سب نے برطانوی حکومت پر دباؤ ڈالا ہے کہ الطاف حسین کے خلاف کارروائی کی جائے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ خود حکومت پاکستان کا اپنا مقدمہ ہی کمزور ہے ایسا لگتا ہے کہ حکومت پاکستان جان بوجھ کر اس ضمن میں نہ تو دلچسپی لے رہی ہے اور نہ ہی پاکستان کی وزارت داخلہ اس سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف فرماتے ہیں کہ الطاف حسین کو پاکستان لا کر کارروائی کی جانی چاہیے، وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان فرماتے ہیں کہ ہم نے تمام تر ثبوتوں کے ساتھ ریفرنس برطانوی حکومت کو بھیج دیا ہے۔ چودھری نثار علی خان سے کوئی پوچھے کہ کیا آپ نے یوسف رضا گیلانی کی کابینہ کے وزیر داخلہ رحمن بابا کے خلاف کوئی کارروائی کی جو خود الطاف حسین کے ساتھ پاکستان مخالف سر گرمیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ رحمان ملک جو قومی سلامتی کے محافظ رہ چکے ہیں ان کے علم میں ہے اور مکمل دستاویزی ثبوت بھی ان کے پاس ہیں کہ الطاف حسین بھارت کی خفیہ ایجنسی را اور برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی 6 کے ساتھ وابستہ ہیں۔ لندن میں بھارتی سفارت کاروں اور برطانوی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کے ساتھ ان کے روابط کا مکمل کچا چٹھا پاکستان کے حساس اداروں کے پاس موجود ہے۔ ان حقائق کے باوجود رحمان ملک واجد شمس الحسن کس حیثیت میں آصف علی زرداری کی ہدایات پر لندن میں الطاف حسین سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں حتی کہ رحمان ملک کو کراچی ہی سے ایم کیو ایم کے ارکان پارلیمنٹ نے سینیٹ کا رکن بنوایا۔۔۔ آخر کیوں؟
دوسری جانب دیکھیے کہ چودھری نثار علی خان کے پاس رحمان ملک دور کی کرپشن کے تمام ثبوت موجود ہیں وزارت داخلہ کے ایک جوائنٹ سیکرٹری کے ذریعے ان کے خلاف انکوائری مکمل ہو چکی ہے اس کرپشن کا تمام ریکارڈ وزارت داخلہ کی الماریوں میں بند پڑا ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین رحمن ملک ہیں اب ماضی کی کرپشن کے حوالے سے ان کے تمام اسکینڈلز پر کون کارروائی کرے گا؟ قائمہ کمیٹی کے اجلاسوں میں شاید ہی کبھی چودھری نثار علی خان تشریف لائے ہوں گے۔ تین سال ہونے کو آئے ہیں آج تک وزارت داخلہ کی اہم کمیٹی میں رحمان ملک کی صدارت میں ہونے والے اجلاسوں میں چودھری نثار علی خان نہ تو شریک ہوتے ہیں اور نہ ہی کبھی کسی نے کوئی احتجاج کیا ہے اور نہ ہی اس ضمن میں جوابدہی کی جاتی ہے۔
ان حالات میں کوئی تصور کرسکتا ہے کہ الطاف حسین اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی ہوسکے گی قومی اسمبلی کی قرار داد کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے؟ کیا آج ملک کا کوئی ادارہ پاکستان دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کی جرأت کرے گا۔ رحمن ملک، چودھری نثار علی خان ہی قوم کو بتا دیں کہ کیا الطاف حسین برطانیہ میں ایم آئی 6 کے مہمان نہیں ہیں؟ ملک کی سلامتی پر سیاست کو ترجیح دی جاتی ہے، اقتدار کو مضبوط بنانے کے لیے ایم کیو ایم کا تعاون درکار ہوتا ہے، آصف علی زرداری ہوں یا شریف برادران ان سب کو اپنا اقتدار عزیز ہے پاکستان کی سالمیت ان کا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔
لندن میں سرے محل تھا، دبئی میں بلاول ہاؤس ہے۔ سوئس بینکوں میں چھ ارب روپے تھے۔ کسی نے کیا کرلیا؟
شریف برادران کی جائدادیں اور اثاثے برطانیہ میں ہیں پاناما لیکس نے بھی پردہ چاک کردیا۔ کسی نے کیا کرلیا؟
12 Abbey View, London NW7 4PB یہ الطاف حسین کا گھر ہے، جس جگہ وہ رہ رہے ہیں اس گھر میں 6 بیڈ رومز، 3 باتھ اور 3 استقبالیہ رومز ہیں اس کے علاوہ لندن کے وسطی علاقے میں الطاف حسین ہی کے نام پر ایم کیو ایم کا مرکزی سیکریٹریٹ الزبتھ ہاؤس نامی بلڈنگ میں واقع ہے اس کی مالیت 2001ء میں 3 لاکھ 85 ہزار پاؤنڈ تھی اس مرکزی سیکریٹریٹ میں کام کرنے والے اسٹاف کی تنخواہیں ماہانہ تقریباً 26 ہزار پاؤنڈ کے لگ بھگ ہیں۔ ایم کیو ایم قائد کے نام دیگر علاقوں میں بھی جائدادیں موجود ہیں زیادہ تر پراپرٹیز طارق میر اور محمد انور کے نام پر ہیں۔ جب کہ برطانیہ میں الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ بھی چل رہا ہے ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل ہوا ان دونوں مقدمات کے حوالے سے الطاف حسین زیر تفتیش رہے ہیں برطانوی شہری ہونے کے ناطے الطاف حسین برطانیہ سے باہر بھی جا سکتے ہیں۔ لیکن اصل صورت حال یہ ہے کہ الطاف حسین عالمی قوتوں کے ایجنڈے کے مطابق ان کے لیے ابھی تک کارآمد ہیں اور ان کے عزائم کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں ان حالات میں پاکستان میں ایم کیو ایم بدستور ان کو قائد تحریک ہی مانتی رہے گی اور عالمی قوتوں کا ہاتھ بھی ان پر رہے گا۔
غیر ملکی خفیہ اداروں کے ساتھ الطاف حسین کی وابستگی کے ثبوت سامنے آچکے ہیں برطانیہ میں ان کے اثاثے بھی منظر عام پر ہیں آصف علی زرداری، شریف برادران کی بیرون ملک دولت بھی سب کے سامنے ہے۔ یہ سب الطاف حسین، آصف علی زرداری اور شریف برادران ایک ہی کشتی کے سوار ہیں جب ان کی منزل ایک یعنی اقتدار، دولت، لوٹ مار اور بھتا خوری ہے تو پھر کون کس کا احتساب کرے گا اور کیوں کرے گا؟ کراچی میں آصف علی زرداری کو اپنا اقتدار برقرار رکھنا ہے وفاق میں میاں نواز شریف کو اپنی حکومت برقرار رکھنی ہے تو پھر الطاف حسین غدار پاکستان ہی کیوں نہ ٹھیرے ان کے خلاف کارروائی کیوں کی جائے گی؟ بس پارلیمنٹ میں قرار داد ہی کافی ہے۔۔۔ سب اچھا ہے۔۔۔