بس صرف افسوس!

120

پاکستان کے دفتر خارجہ نے بنگلا دیش میں پھانسیوں پر افسوس کا اظہار کردیا اور بنگلا دیش سے سہ فریقی معاہدے پر عملدرآمد کا مطالبہ بھی کردیا۔ یہ مطالبہ تو پہلی پھانسی پر ہونا چاہیے تھا 8 ویں پھانسی پر تو بنگلا دیش کی حکومت کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے تھی۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے جو بیان جاری کیا ہے وہ بھی بہت محتاط ہے۔ اس بیان میں یہ ضرور کہا گیا ہے کہ بنگلا دیش 1974ء کے سہ فریقی معاہدے پر عمل کرے لیکن اس بیان میں خود ہی سقم چھوڑ دیا گیا ہے کہ حسینہ واجد کے اقدام سے اپوزیشن بھی حیران ہوئی ہے۔ اس پر بجا طور پر سوال کیا جاسکتا ہے کہ بنگلا دیش کی اپوزیشن سے پاکستان کا کیا واسطہ۔۔۔ سیدھے سیدھے یہ مطالبہ 1974ء کے معاہدے کے ایک فریق کے طور پر کیا جانا چاہیے۔ پاکستان اس معاہدے کے فریق کی حیثیت سے اس کی مسلسل کئی برس سے خلاف ورزیوں پر یہ معاملہ اقوام متحدہ، بین الاقوامی عدالت یا کسی بھی فورم پر اٹھا سکتا ہے۔ اگر بھارت معاہدے کی پاسداری کے لیے بنگلا دیش کو پابند نہیں کر رہا تو اس طرح پاکستان اس معاہدے سے آزاد ہوگیا اور پاکستان اس تنازع کے تمام کرداروں کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے آزاد ہے۔ لہٰذا یہ ہلکا پھلکا اظہار افسوس ہے ۔۔۔ ہے اور اس کام کے لیے دفتر خارجہ کے ترجمان کا انتخاب بھی غلط ہے۔ اس پر براہ راست صدر پاکستان، وزیراعظم، آرمی چیف یا وزیر خارجہ کو رد عمل دینا چاہیے تھا۔ ترجمان کے بیان پر تو بنگلا دیش احتجاج کرے گا اور ہمارا جواب ہوگا کہ اچھا ہم ترجمان کے بیان کا جائزہ لیں گے اور پھر بس۔۔۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی جانب سے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی اور اس قدر سنگین خلاف ورزی جس میں انسانی جانیں بھی لی جارہی ہوں نہایت خراب صورت حال کی عکاسی کر رہی ہے۔ بھارت کا پاکستان کے خلاف رویہ سب کے علم میں ہے اور حسینہ حکومت کا بھارت کے مکمل کنٹرول میں رہنا بھی اب کوئی راز نہیں ہے خود بنگلا دیش کی تمام سیاسی پارٹیاں حسینہ واجد حکومت کو بنگلا دیش کے لیے سیکورٹی رسک قرار دے رہی ہیں۔ ایک تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق بنگلا دیش میں پاکستان کے نام پر قربانیوں پھانسیوں اور مظالم کے نتیجے میں بنگلا دیش میں نظری�ۂ پاکستان دوبارہ ابھر رہا ہے۔ اگر حکومت پاکستان نظریۂ پاکستان کو کچھ سمجھتی ہے تو اس صورت حال میں نظریۂ پاکستان ہی کی خاطر مضبوط آواز اٹھائے۔ محض افسوس تو شاید زمبیا اور کیوبا بھی کردیں۔ اور ان کے افسوس یا احتجاج کا پاکستان سے زیادہ اثر ہوگا۔ پاکستان کی جانب سے تو اب آخری وارننگ جانی چاہیے کہ اب کوئی پھانسی اور کوئی مقدمہ آگے نہیں بڑھے گا۔ لیکن مسئلہ وہیں آکر اٹکتا ہے کہ اس کے لیے جرأت مند قیادت کی ضرورت ہوتی ہے، دنیا بھر کی حکومتیں اپنے وقار کی خاطر بڑے سے بڑا فیصلہ کر ڈالتی ہیں۔ یورپی ممالک اور امریکا تو اپنے جاسوسوں کے لیے تعلقات ختم کرنے پر تل جاتے ہیں۔ ہماری حکومت ایک جھوٹے پروپیگنڈے کی بنیاد پر قائم ٹریبونل اور اس کی جعلی کارروائیوں کو کیسے برداشت کر رہی ہے جبکہ ہر مقدمے میں سو سو مرتبہ پاکستان کو بد نام کیا جاتا ہے۔ پاکستان پر سازش کا الزام لگایا جاتا ہے۔ بنگلادیش کے خلاف سازش ایک ایسا مفروضہ ہے کہ کسی بھی معقول آدمی سے سوال کریں تو وہ ہنسے گا۔ بنگلا دیش کا قیام تو پاکستان کے خلاف سازش اور ملک توڑ کر عمل میں آیا تھا۔ بھلا پاکستان توڑ کر وجود میں آنے والے ملک کے خلاف کوئی پاکستانی کیسے سازش کر سکتا ہے۔ یہ ساری سازش یہ سارا مقدمہ حسینہ واجد اس کے حواریوں اور سر پرست مودی کے خلاف بنتا ہے۔ لیکن مودی کے خلاف بات کرنا یا مودی کے حمایت یافتہ ملک کے بارے میں رائے دینا یا آواز اٹھانا ہمارے حکمرانوں کے لیے بہت مشکل بلکہ نا ممکن لگتا ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے 8 ستمبر کو بنگلا دیش سفارت خانے پر دھرنے کا اعلان کیا ہے۔ جماعت اسلامی نے بلایا ہو یا نہیں، تمام پاکستانی سیاسی جماعتوں بشمول حکمرانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اس دھرنے میں خود بھی شریک ہوں اور اس کو کامیاب بنا کر بنگلا دیش کی حکومت کو ایک متفقہ پیغام دیں کہ یہ مسئلہ جماعت اسلامی کا نہیں پاکستان کا ہے۔ مقدمات میں یہی کہا جاتا ہے کہ تم نے پاکستانی فوج کا ساتھ دیا کسی پر یہ الزام نہیں کہ وہ جماعت اسلامی کے لیے کام کر رہا تھا۔