جمہوری قوتیں جمہوریت کو بچائیں

140

پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں ہر وقت جمہوری عمل خطرے میں رہتا ہے جب یہ عمل پروان چڑھنے لگتا ہے اس کے خلاف سازشیں شروع ہو جاتی ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس جمہوری عمل کے خلاف سازشوں میں جمہوری پارٹیاں اور سیاستدان ہمیشہ استعمال ہوئے۔ خواہ وہ 1958کا مارشل لا ہو یا آج کے حالات، ہر وقت جمہوری پارٹیوں کے ایک دوسرے کے خلاف احتجاج، ریلیوں، مظاہروں اور الزام تراشیوں کے نتیجے میں سیاستدانوں اور سیاست کا چہرہ گدلا جاتا ہے۔ آج کل بھی یہی کیفیت ہے۔ یہ درست ہے کہ میاں نواز شریف کی حکومت سب کچھ ٹھیک نہیں کر رہی بلکہ بہت کچھ غلط کر رہی ہے لیکن اس سے اختلاف کے بھی آداب ہوتے ہیں۔ اس قسم کا رویہ نہایت نامناسب ہے کہ آج کا جلسہ ہوگا اور تمہیں جیل جانا ہوگا۔ کل حکومت ختم ہو جائے گی۔ شیخ رشید تو تاریخیں دے دے کر نہیں تھکتے۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ حکومت کے خلاف صرف دو بڑی پارٹیاں احتجاج کر رہی ہیں، ایک جماعت اسلامی اور ایک تحریک انصاف۔ باقی ایک رکنی پارٹی ہے یا صرف میڈیا کی حد تک بڑی پارٹی ہے۔ جماعت اسلامی نے اب تک جتنا بھی احتجاج کیا ہے قانون اور اخلاق کے دائرے میں کیا ہے۔ امیر جماعت سراج الحق پاناما لیکس سے متعلق کیس عدالت عظمیٰ میں لے گئے ہیں انہوں نے خود دوسروں کی طرح فیصلہ نہیں سنایا۔ لیکن عمران خان کی جانب سے جس قسم کی مہم چلائی جارہی ہے اس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ شاید حکومت آج گئی یا کل۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر طاہر القادری بھی احتجاج میں مصروف ہیں۔ ان کے جلسے بلاشبہ بڑے ہوتے ہیں۔ کیسے ہوتے ہیں اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں لیکن بڑا جلسہ عوامی پذیرائی کی سند نہیں ہوتا۔ اب پیپلز پارٹی بھی بظاہر اپوزیشن کا رول ادا کرنے کے لیے میدان میں آگئی ہے اور پہلا کام یہ کیا ہے کہ قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر ڈالا یہ مطالبہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کیا ہے اور منطق یہ دی ہے کہ حکومت نا کام ہو رہی ہے۔ انہوں نے آئندہ اسمبلی کی مدت 4 سال مقر کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور موجودہ حکومت کی نا کامی کے سبب قبل از وقت انتخابات کرانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ پاکستان میں پانچ سال حکومت کا ریکارڈ قائم کرنے والی پیپلز پارٹی کو تو ایسا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس قسم کے علانات ہو رہے ہیں کہ آج رائے ونڈ ور کل اسلام آباد جائیں گے۔ دوسری طرف سے بنی گالہ جانے کی بات کی جارہی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے تو براہ راست آرمی چیف کو مداخلت کے لیے پکارا ہے کہ اگر آپ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا بدلہ لیے بغیر ریٹائر ہوگئے تو کیا ہوگا۔ گویا آگے بڑھیں اور حکومت ختم کردیں۔ تب تک ریٹائر نہ ہوں۔ اب پیپلز پارٹی 15 ستمبر سے رابطہ عوام مہم شروع کرے گی۔ جمہوری حکومت اور قوتوں کو چاہیے کہ اس نظام کو بچانے کے لیے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا طریقہ سیکھیں۔ ورنہ گھر کے چراغ سے گھر کو آگے لگنے کا ایک اور واقعہ ہوسکتا ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ بہت سی قوتیں جمہوری نظام کی بساط لپیٹنے کے لیے مشورے دے رہی ہیں۔ ایک مشورہ ہمارا بھی ہے کہ بغیر ٹھوس ثبوت کے الزامات نہ لگائیں۔