عاصمہ جہانگیر کی آواز

136

عاصمہ جہانگیر ملک کی توانا مگر متنازع آواز رہی ہیں۔ معاشرے کے مجموعی مزاج کے اُلٹے رخ چلنا بعض لوگوں کی سرشت میں ہوتا ہے۔ سوچ اور خیالات کا تنوع اگر اختلاف رائے کی حد تک رہے تو باعث خیر ہوتا ہے مگر اپنی سوچ پر اصرار ردعمل کو جنم دیتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر ملک میں انسانی حقوق کی جدوجہد کی علامت ہیں۔ وہ بہت سے حلقوں میں پاکستان کی پہچان ہیں۔ جس سوشل میڈیا پر ان کی بنگلا دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد سے ایوارڈ لینے اور بال ٹھاکرے سے نارنجی لباس والی تصویریں طنزیہ اور مخالفانہ تبصروں کے ساتھ گردش کررہی تھیں وہیں آج عاصمہ جہانگیر کی ایک مختلف اندا ز کی تصویر اور تقریر داد وتحسین سے بھرپور تبصروں کے ساتھ گردش کر رہی ہے۔
چند دن قبل کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر ہونے والے مظاہرے میں عاصمہ جہانگیر، حامد میر اور کچھ دوسرے کتبے اُٹھائے نظر آئے۔ حامد میر ملکی اور بیرونی دنیا میں ایک جانا پہچانا نام ہیں۔ وہ کشمیری النسل بھی ہیں اور ان کا کشمیر سے یوں بھی قریبی تعلق ہے کہ ان کے نانا ڈاکٹر غلام احمد جراح جموں کے مہاجر تھے اور کشمیر کے معروف آزادی پسند راہنما مقبول بٹ شہید کے قریبی ساتھی تھے۔ اس نسبت سے حامد میرکشمیر پر لکھتے اور بولتے ہی رہتے ہیں۔ اس مظاہرے میں عاصمہ جہانگیر کی پہلی بار کشمیریوں کی حمایت میں جرات مندانہ انداز میں بولتی ہوئی نظر آئیں۔ عاصمہ جہانگیر کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب قریباً دوماہ قبل برھان وانی کو شہید کیا گیا تو وہ کشمیر میں تھیں۔ برھان وانی کی شہادت کے بعد جب کشمیر کے حالات بگڑے تو عاصمہ جہانگیر اس صورت حال کی چشم دید گواہ تھیں۔ انہوں نے اسلام آباد کے مظاہرے میں کشمیر کی صورت حال پر کھل کر بات کی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دفعہ کشمیر میں جو ہوا کوئی اس پر انگلی نہیں اُٹھا سکا کہ یہ کراس بارڈر ٹیررازم ہے یا کچھ اور۔ میں جب کشمیر میں تھی تو بچہ بچہ برھان کی بات کر رہا تھا۔ سب کہہ رہے تھے اب ہمارے اپنے لیڈر ہیں۔ ایک خاتون نے مجھ سے کہا کہ وہ ہمارا پوسٹر بوائے ہے۔ سری نگر کے ہندوؤں نے مجھے بتایا کہ جو ہوا بہت برا ہو۔ یہ کیا کر رہے ہیں ایک خاتون نے کہا کہ سینے پر گولی کیوں چلائی گئی۔ پاؤں پر مارتے یا زندہ پکڑتے۔ مجھے اسی وقت سمجھ میں آگیا تھا کہ یہ معاملہ بڑھے گا کیوں کہ کشمیری نوجوانوں نے دہلی سے پیٹھ کر لی ہے اور بھارت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ کشمیری نوجوان نے اس کی طرف پیٹھ کیوں کی۔ سری نگر کا نوجوان اب دہلی کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں۔ مودی حکومت چاہتی ہے مسلمان جو سر ی نگر میں بیٹھا ہے اس کو ختم کرنا ہے اس کی انٹیلکچوئل کیپسٹی کو ختم کرنا ہے، سوچ کو ختم کرنا ہے۔ کشمیری مسلمان خوف وہراس میں رہ رہا ہے۔ میں نے سری نگر میں ایک ٹیکسی والے سے کہا کہ مجھے یاسین ملک کے گھر جانا ہے۔ اس نے کہا میں وہاں نہیں جا سکتا کیوں کہ آپ تو چلی جائیں گی پیچھے میرا براحال ہوجائے گا۔ عاصمہ جہانگیر نے بھارت کے لبرل طبقے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لبرل سوچ رکھنے والوں آؤ کشمیر کو ڈی ملٹرائز کرائیں۔ کشمیریوں کو آزادی دلوائیں۔ پورے خطے کو آزاد کروائیں۔ عاصمہ جہانگیر کے خطاب کا یہ حصہ تاریخی ہے۔
عاصمہ جہانگیر امریکا، یورپ اور بھارت میں اپنی کئی عدالتی معرکہ آرائیوں، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کشمکش اور انسانی حقوق اور اقلیتوں کی حمایت میں آوازبلند کرنے کی بنا پر اپنا ایک وسیع حلقہ اثر رکھتی
ہیں۔ اس کا اندازہ مجھے ایک 2003 میں بھارت میں ہوا جب ہم دہلی کے نواح میں ابراہیم پور کے علاقے میں نوبل انعام یافتہ بھارتی کیلاش ستیارتھی کے مرکز مکتی آشرم میں ایک تقریب میں شریک تھے۔ کیلاش ستیارتھی پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد کی بات کر رہے تھے انہوں نے عاصمہ اور جسٹس دراب پٹیل جیسے لوگوں کے حوالے دیے۔ آپ دہلی میں بیٹھے ہوں اور کسی پاکستانی کا نام مثبت حوالوں سے آئے تو یک گونہ خوشی ہوتی ہے۔ اسی طرح 1998 میں لندن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے دفتر میں جنوبی ایشیا کے ڈیسک کی انچارج کے کمرے میں عاصمہ جہانگیر کے بیانات پر مشتمل انگریزی اخبار کے تراشے سجے ہوئے دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی تھی۔ اس پس منظر اور حوالے کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ عاصمہ جہانگیر کشمیریوں کی حمایت میں پاکستان سے بلند ہونے والی ایک موثر آواز ہیں۔
بھارت کے بہت سے لبرل ہمیشہ سے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر آواز بلند کرتے چلے آئے ہیں۔ آج بھی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور لبرل دانش ور اور کنہیا لال جیسے طالب علم راہنما کشمیریوں کی حمایت میں قلم اور زبان کا استعمال کرتے نظر آرہے ہیں لیکن پاکستان کے لبرلز نے اس مسئلے کو ریاست، اسٹیبلشمنٹ، جماعت الدعوۃ اور جیش محمد کا مسئلہ جان کر منہ موڑ رکھا تھا۔ فیض احمد فیض جیسی شخصیات سے بہت سوں کو یہ گلہ رہا کہ وہ افریقا سے فلسطین تک ہر غم میں گھلتے رہے مگر انہوں نے نظر اُٹھا کر بھی اس خطے کی طرف نہیں دیکھا جہاں ایلس فیض کے ساتھ ان کا نکاح ہوا اور نکاح خوانی شیخ عبداللہ نے کی۔ اپنے نکاح خواں کی طویل قید اور رسوائی بھی ان کے قلم سے ایک شعر نہ اُگلوا سکی۔ عاصمہ جہانگیر، آئی اے رحمان، افراسیاب خٹک جیسے
لوگ بھی اس معاملے سے لاتعلق تھے۔ عاصمہ جہانگیر کو قدرت نے یہ موقع عطا کیا کہ وہ اس اہم موڑ پر کشمیر میں موجود تھیں جب حالات کی رُت بدلنے اور ایک قوم کے تیور بگڑنے لگے تھے۔ انہوں نے دائیں بائیں پاکستان کے کسی خفیہ ادارے، کسی عسکری گروہ کے ایجنٹوں کو ضرور تلاش کیا ہوگا؟ ان کی نظریں لشکر طیبہ اور جیش محمد کے حامیوں کو ضرور تلاش کرتی رہی ہوں گی اور ہر بار ان کی نظر ایک عام اور سادہ لوح کشمیری، ایک عام گھریلو عورت یا پراکسی سیاست کی الجھنوں سے دور اور آزاد مگر آزادی کے حق میں جذباتی کشمیری لڑکوں سے چار ہوئی ہوں گی۔ وہ ضرور کسی راہ گیر کے دل میں بے ساختہ جھانکی ہوں گی کہ جو انہیں بتا سکے کہ کشمیر میں سارا عذاب اور اُبال پاکستان اور کسی ایجنسی نے برپا کیا ہے مگر ہر بار انہیں کسی ٹیکسی ڈرائیور، کسی گیسٹ ہاؤس کے ویٹر، کسی دکاندار سے یہی جواب ملا ہوگا کہ کشمیریوں پر یہ عذاب نئی دہلی کا برپا کردہ ہے۔ اس گہرے مشاہدے نے پاکستان میں ایک بدلی ہوئی عاصمہ جہانگیر کو متعارف کرایا جو اپنی سوچ کی اسیر نہیں بلکہ ایک انصاف پسند انسان کے طور پر اپنے خیالات اپنے مشاہدے سے کشید کررہی ہیں۔ آ ج کشمیریوں کو پاکستان سے ایسے ہی وکیلوں کی ضرورت ہے۔ حافظ سعید جب کشمیریوں کی حمایت میں مودی کے پتلے اور بھارتی پرچم جلاتے ہیں تو بھارتی میڈیا اسے یوں توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے کہ گویا کہ کشمیر میں سار ی صورت حال پاکستان کے ’’انتہا پسندوں‘‘ کی پیدا کردہ ہے۔ اس طرح بھارت کا وہ لبرل طبقہ بھی خوف زدہ ہوجاتا ہے جو حق اور انصاف کے اصولوں کی بنیاد پر کشمیریوں کی حمایت کے لیے دہلی کی سڑکوں اور میڈیا ہاؤسز میں بولتا ہے۔ ان میں بائیں باز و کے بھارتی نوجو انوں کی آوازیں بہت توانا ہیں۔ اس قدر پر اثر، پر زور اور پر شور کہ وہ بھارت میں عدالتی قتل کا شکار ہونے والے کشمیریوں افضل گورو اور مقبول بٹ کی حمایت میں بات کرنے سے نہیں چوکتے۔