ورا ثت کی قیادت

126

تازہ خبر یہ ہے کہ ’’ متحدہ لندن ‘‘ کے قائد نے اپنے جانشین کے طور پر اپنی دختر نیک اختر افضاء کو تیار کرنا شروع کردیا ہے تاکہ پارٹی میں موجود دھڑے بندی کی جو فضابن رہی ہے اس کا خاتمہ کر کے گھر کی پارٹی کو گھر میں ہی رکھا جاسکے۔ اس مرحلہ کی تیاری کے آغاز میں الطاف حسین نے تمام ملکیتی اثاثے اور سرمایہ اپنی بیٹی کے نام کردیا ہے۔ رہا سیاسی اثاثہ جس کی منتقلی کے لیے اس بات کا انتظار ہو رہا ہے کہ فضا میں ان کی تقریر سے جو تناؤ ہوا ہے وہ ذرا کم ہو جائے اور بات آئی گئی ہو جائے تو الطاف حسین افضاء کو اسی طرح چیئرپرسن قرار دے دیں گے جو مقبول عام جماعتوں کا شیوہ رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست کی وارث نصرت بھٹو بنیں اور پھر ان سے پارٹی کی قیادت ان کی دختر بے نظیر بھٹو نے پارٹی میں اپنے نامزد افراد کی مجلس عاملہ کے ہاتھ اٹھوا کر خود ہتھیا لی اور پھر سانحہ بے نظیر بھٹو کے بعد وصیت نامہ کے ذریعے آصف علی زرداری جانشین قرار پائے تو انہوں نے اگلے جھگڑے کو نمٹاتے ہوئے بلاول زرداری کو پارٹی کی باگ دوڑ تھما دی اور خود شریک قائد ہوگئے۔ اسی طرح محمد نواز شریف جو پی پی پی کی مفاہمت کی سیاست سے بہت کچھ سیکھ گئے ہیں ۔ انہوں نے اسی نقش قدم کی پیروی میں مریم کو تیار کرنا شروع کردیا ہے۔ محمد نواز شریف دل کے آپریشن کے سلسلے میں بیرون ملک تھے تو ملک کے نظام کار کو ’’ مریم ‘‘ ان آفیشل سنبھالتی رہیں اور رموز خسروانہ کی تربیت حاصل کرتی رہیں۔ کچھ احباب نکتہ چیں ہوئے مگر توتی کی آواز نقار خانے میں کون سنے۔ حکومت کا کام یوں ہی چلتا رہا۔
خان غفار خان جو خدائی خدمت گار کہلاتے تھے اور خدائی قوانین پر عمل درآمد کا ان کا خانہ خاصہ کمزور رہا اور وہ بھارت کو راحت گاہ سمجھتے اور سونا چاندی میں وہاں تلتے رہے۔ ان کی وفات اور تدفین کا معاملہ بھی عجب رہا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند ولی خان نے ان کی سیاسی گدی سنبھالی۔ ان کے ساتھ بیگم نسیم ولی خان بھی میدان سیاست میں ملک کی نصف آبادی خواتین کی نمائندگی کے طور پر سرگرم رہیں ۔ اب اسفند ولی یار خان اس سیاسی کھیتی کے وارث بنے ہوئے ہیں ۔ اور تو اور مفتی محمود جو عالم دین تھے سیاست میں بوریہ نشین حکمران رہے ان کے انتقال نے مولانا فضل الرحمن کے بھاگ کھول دیے یہ ان کی گدی پر پراجمان ہوگئے اور انہوں نے سیاست کو سیاہ ست کر کے کوئلے کی دلالی کا سا کام سنبھال لیا۔ اور دینی سیاست کو ایسی دنیاوی سیاست کی راہ پر دوڑا دیا جو وہ ہی کرسکے تھے ان کے دونوں ہاتھ میں لڈو ہیں ۔
پاکستان میں اگر کوئی پارٹی موروثی سیاست سے پاک رہی ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے جس کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کرنے کے حوا لے سے کتاب خلافت وملوکیت لکھ کر یہ ثابت کرنے کی مدلل کوشش کی ہے کہ باپ کے بعد بیٹاخلیفہ بنے یہ وراثت غلط ہے۔ اگر خلافت کی بھی وراثت ہوتی تو قرآن میں وراثت کی تقسیم کے بیان میں اس کا تذکرہ ہوتا۔ یا فرمان مصطفیؐ ہوتا۔ اس تہلکہ انگیز کتاب نے مقبولیت پائی اور وہ طبقہ جو قیادت کی وراثت میں راحت محسوس کرتا ہے اور پکی پکائی دیگ کا مالک بن جاتا ہے ۔ اس نے اس کتاب پر خوب نکتہ چینی کی ۔ جب خلافت ملوکیت میں تبدیل نہیں کی جاسکتی تو قیادت وراثت میں کیسے مل سکتی ہے۔ سو اس پارٹی کی قیادت کی و راثت اولاد کو نہ مل سکی بلکہ جس کو اراکین نے چاہا وہ امیر جماعت اسلامی بن گیا۔ معاشرے میں قیادت کی وراثت نے اپنا وجود اپنے بڑوں کی بوئی ہوئی فصل سے برقرار رکھا۔ اج بھی جیے بھٹو کے نعرے کا ووٹ بینک سندھ میں ہے۔ تو پنجاب میں نواز شریف کے کام اور نام کا ووٹ ہے۔ کیا افضا ء بھی وراثت میں ملنے والی قیادت کو ان خونخوار بھیڑیوں میں کامیاب بنا سکیں گی۔ جو متحدہ کے چڑیا گھر میں پالے ہوئے ہیں۔ اس کا فیصلہ حالات اور وقت کرے گا۔ جب سیاست میں قیادت وراثت میں چلے گی تو وراثت میں وہی کچھ ملے گا جو وارثوں نے چھوڑا ہوگا۔