سیکیورٹی کے معاملات پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، وزیر داخلہ چوہدری نثار

268

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ سیکیورٹی کے معاملات پر سیاست نہیں ہونی چاہیے اور اپنے ذاتی و پارٹی موقف کو ایک طرف رکھ کر بات کرنی چاہیے‘ دہشتگردی کے واقعات میں واضح کمی آئی ہے لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی‘ جنگ ابھی جاری ہے اور اس میں نقصان ہوگا‘ انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستان کی بقاءکی جنگ لڑ رہی ہیں‘ فوج اور پولیس نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں‘ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر 20 ہزار سے زائد آپریشنوں میں ہزاروں خطرناک دہشتگردوں کو پکڑا گیا ہے‘ دہشتگردی کا ناسور ختم کرکے رہیں گے‘ کوئی میری تضحیک کرے گا یا بلا جواز الزام تراشی کرے گا تو جواب ضرور دوں گا‘ دہشتگردوں کا مقابلہ کریں گے اور اپنے گلی محلے‘ بازار اور سکول بند نہیں کریں گے‘ دشمن نفسیاتی حملے کر رہا ہے‘ خطابت کا زور دکھانے سے یہ پیغام جاتا ہے کہ ہم آپس میں لڑ رہے ہیں‘ آئندہ چند مہینوں اور سالوں میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

بدھ کو ایوان بالا کے اجلاس میں سانحہ کوئٹہ اور سانحہ مردان پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ اور مردان کے افسوسناک واقعات کے حوالے سے ایوان میں تلخ و شیریں اظہار خیال کیا گیا۔ سانحہ کوئٹہ و مردان کی پرزور مذمت کرتا ہوں۔ شہداءکے لواحقین سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔ جہانزیب جمالدینی کے جواں سال صاحبزادے کی شہادت پر ان سے بھی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔ ان کی تقریر سے متاثر ہوا ہوں‘ انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں‘ والدین کے ہاتھوں اولاد کی میتیں اٹھانا اور جنازے پڑھنا بہت بڑی آزمائش ہے۔

وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ یہاں کہا گیا کہ افسوس اور مذمت کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے‘ ایسا نہیں ہے‘ بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ انٹیلی جنس اداروں‘ پارلیمان‘ حکومت‘ عوام پر بڑی ذمہ داری ہوتی ہے‘ جس قسم کی دہشتگردی کا سامنا ہے اس میں دشمن سامنے نہیں ہے۔ ایسا نہیں کہ افواج آمنے سامنے ہیں اور جنگ کے قوانین پر عمل ہو رہا ہے‘ یہ مختلف جنگ ہے جس میں دشمن ظاہر نہیں۔ بارڈر پر نہیں کھڑا‘ وہ ہمارے اندر ہے‘ چھپا ہے‘ اس کا رنگ اور زبان ہمارے جیسی ہے۔ کچھ ہمارے دشمن سالہا سال سے ہیں‘ روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ نیپ پر دو بار اس بارے گھنٹوں بریف کر چکا ہوں۔ ہر واقعہ کے بعد جائے حادثہ پر پہنچا ہوں‘ بدقسمتی سے اس جگہ نہیں پہنچ سکا۔ اس ایوان کی آواز ہر جگہ پہنچاﺅں گا۔ ہر سانحہ کے بعد میں نے کئی اقدامات کرنے ہوتے ہیں‘ کئی معاملات کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ خودکش کے اعضائ‘ ڈی این اے‘ دہشتگردوں کی فون کالز سمیت مختلف امور دیکھنے ہوتے ہیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ واقعہ کے بعد دوروں کے حوالے سے اعلیٰ سطحی سیکیورٹی اجلاس میں اس تجویز کو اٹھاﺅں گا جو یہاں دی گئی ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ دنیا کہتی ہے بہتری آئے گی‘ جون 2013ءمیں روزانہ 5 سے 6 دھماکے‘ سالانہ 2 ہزار دھماکے ہوتے تھے‘ کوئی پالیسی نہیں تھی۔ اسلام آباد میں کون کون سا واقعہ نہیں ہوا۔ عدالتوں‘ چرچوں پر حملے ہوئے‘ بری امام‘ میریٹ ہوٹل پر حملہ ہوا۔ جس میں ایک سفیر ہلاک ہوا‘ کوئی ردعمل ہوتا تھا۔ مشاورت کے بعد آٹھ مہینے مذاکرات ہوئے‘ پی پی پی‘ ایم کیو ایم‘ اے این پی کو اس پر تحفظات تھے ان کے جائز تحفظات تھے۔ مشاورت کے بعد تینوں جماعتوں نے قومی مفاد میں فیصلہ کیا کہ وہ ساتھ دیں گے۔ جنرل کیانی تھے اس وقت ان کے بھی تحفظات تھے۔ ملکی تاریخ میں سویلین قیادت سے پہلی بار پہاڑوں سے اتر کر طالبان نے مذاکرات کئے۔ ڈبل گیم کھیلی گئی۔ اپریل 2014ءمیں عسکری و سویلین قیادت کی بات چیت میں سامنے آیا کہ ملٹری آپریشن کی تیاری کی جائے۔ دھماکے اور مذاکرات ساتھ ساتھ جاری رہے۔ کراچی حملے کے بعد فوجی آپریشن کا فیصلہ کرلیا گیا تھا‘ فیصلہ کیا گیا کہ میں ان جماعتوں سے ملوں جو آپریشن کے خلاف تھیں۔ میں ان سے خاموشی سے ملا‘ ان کو آپریشن پر جائز تحفظات تھے‘ طے ہوا کہ وہ حمایت نہیں تو آپریشن کی مخالفت بھی نہیں کریں گے۔ پھر فوجی آپریشن مشاورت کے بعد شروع ہوا۔

وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد تمام جماعتوں نے مل کر تیار کیا۔ نیپ ایک سویلین نیشنل ایکشن پلان ہے‘ کہا جاتا ہے سویلین نے اپنا کام نہیں کیا‘ فوج نے اپنا کام کردیا۔ دہشتگردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے‘ دنیا کے اعداد و شمار کو دیکھیں۔ امریکہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2015ءتک پاکستان میں دہشتگرد حملوں میں جان جانے کے واقعات میں 39 فیصد کمی آئی ہے۔ دہشتگرد حملوں میں 54 فیصد کمی آئی ہے۔ اس میں ہماری پولیس‘ ایجنسیوں‘ فوج‘ سیکیورٹی اداروں کا کردار ہے جنہوں نے جانوں کی قربانی دے کر یہ کامیابی حاصل کی‘ کہاں روزانہ پانچ چھ دھماکے کہاں آج کے حالات‘ جب مہینوں دھماکے نہیں ہوتے‘ ایک وقت تھا دھماکہ نہ ہونا خبر تھی‘ ہمیں ابھی بہت کام کرنا ہے۔

چوہدری نثار علی کا کہنا تھا کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی‘ ابھی جاری ہے‘ نقصان ہوگا‘ جنگوں میں نقصان ہوتا ہے۔ ضرب عضب میں فوج نے 500 جانوں کی قربانی دی۔ پولیس تربیت یافتہ نہ ہونے اور لیس نہ ہونے کے باوجود محض جذبے سے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لڑ رہی ہے۔ پولیس کا بہت بڑا کردار ہے‘ انٹیلی جنس ایجنسیوں پر تنقید کی جاتی ہے‘ یہ تنقید سر آنکھوں پر‘ اچکزئی میرے دوست ہیں۔ میں نے زندگی میں پہلی بار اچکزئی کی تقریر پر جواب دیا۔ مجھے ان کے کچھ الفاظ سے تکلیف ہوئی‘ ان کی شکایتیں ہوں گی لیکن آج یہی ایجنسیاں پاکستان کی بقاءکی جنگ لڑ رہی ہیں‘ بہت سے حملوں کی نشاندہی قبل از وقت انہی ایجنسیوں نے کی تھی جن کو نااہل کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنوں جیل پر حملہ‘ آرمی پبلک سکول پر حملہ‘ کراچی ایئرپورٹ‘ باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کی اطلاع ہفتوں‘ مہینوں پہلے سے تھی۔ واہگہ حملے کی اطلاع ڈیڑھ ماہ پہلے دی تھی۔ حملہ کے دن بھی اطلاع پنجاب حکومت اور رینجرز کو دی تھی۔ ایجنسیاں اپنا کام کر رہی ہیں‘ دنیا کی ایجنسیاں بہت لیس ہیں ان کے وسائل بہت زیادہ ہیں‘ نائن الیون کے حملہ آور کئی ماہ وہاں تیاری کرتے رہے‘ مغربی ملکوں میں دہشتگردی کی ایک لہر آئی ہے‘ کئی جگہ واقعات ہوئے ہیں انہیں پتہ نہیں چلا‘ کیا آپ کو پتہ ہے دہشتگردی کا گراف جو نیچے آیا ہے یہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کے نتیجے میں آیا ہے۔ 20 ہزار سے زائد انٹیلی جنس بنیاد پر آپریشن میں ہزاروں خطرناک دہشتگرد گرفتار کئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس اطلاعات کی بنیاد پر کئی دہشتگرد گرفتار کئے ہیں‘ کئی دہشتگرد حملوں کے بعد انٹیلی جنس معلومات کی بناءپر مجرموں تک پہنچے‘ کوئٹہ اور مردان کا حملہ اس وقت تک انٹیلی جنس معلومات کی بناءپر یہ حدود اربعہ موجود ہے کہ کون سے دہشتگرد اس کے پیچھے ہیں۔ واضح تحقیق ہے کہ کوئٹہ ہسپتال کے اندر جس شخص نے خود کو اڑایا وہ خودکش بمبار ہے‘ مردان کچہری میں بھی خودکش حملہ آور تھا چار دہشتگرد جو وارسک کے قریب آئے وہ کہاں سے آئے وہ واضح ہے۔ ان کے کوائف کی بائیو میٹرک کی گئی اس میں پتہ چلا کہ وہ غیر ملکی ہیں۔ وہ کہاں سے آئے‘ یہ بھی واضح ہے۔ جو دہشتگرد مردان کچہری تک آیا اس کے سہولت کاروں تک بھی پہنچ رہے ہیں ابھی تفتیش جاری ہے۔دھماکے کے بعد اعضاءجمع کرنا مشکل کام ہے‘ سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے تین آدمی پہلے دن ہی پکڑے ہیں ان سے تفتیش جاری ہے جو سہولت کار تھے اور استعمال ہوئے۔کہاں سے مواد آیا ابھی یہ تفتیش جاری ہے‘ مردان پشاور حملوں میں غیر ملکی ہتھیار استعمال کئے گئے۔ کوئٹہ حملے میں ایک دہشتگرد تھا تین آدمی ابھی تک زیر تفتیش ہیں۔ اطمینان رکھیں پہلے بھی اس طرح کے واقعات کا سراغ لگایا ہے۔ اب بھی مجرموں تک پہنچیں گے۔ جب بھی ایسی پیش رفت سامنے آئی اس ایوان کو یا قومی اسمبلی کو آگاہ کروں گا۔