فوج چوکس ہے

130

عجیب بات یہ ہے کہ حسب سابق جمہوری دور میں غیر جمہوری قوتوں کو پکارا جارہا ہے۔ سپہ سالار اور عدالت عظمیٰ کے بڑے جج کو مداخلت کی دعوت دی جارہی ہے۔ 2014ء کے طویل دھرنے میں بھی امپائرکی انگلی اٹھنے کا انتظار کیا جاتا رہا۔ قومی اسمبلی میں بیٹھے ہوئے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس میں چور، ڈاکو بیٹھے ہوئے ہیں۔ کیا اسے خود شناسی کی معراج کہا جائے۔ 6 ستمبر، یوم دفاع پاکستان کا تقاضہ تھا کہ وطن کے دفاع کے لیے فوج اور سیاست دان کامل یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ لیکن اس موقع پر بھی انتشار اور افتراق ہی نظر آیا۔ کوئی رائے ونڈ پر چڑھائی کرنے کا اعلان کررہا ہے اور کوئی جواباً کہتا ہے کہ بنی گالہ بھی دور نہیں۔ ن لیگ کے حنیف عباسی چیلنج کرتے ہیں کہ رائے ونڈ جا کر تو دکھاؤ، اور اسی پارٹی کے طلال چودھری فرما رہے ہیں کہ عمران خان آئے تو مہمان نوازی کا مظاہرہ کریں گے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کے اقدامات پر جانب داری کا الزام آرہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ وہ نام کے بھی صادق نہیں۔ دوسری طرف یوم دفاع پاکستان پر پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بہت زبردست تقریر کی اور واضح کردیا کہ فوج دشمنوں کی ہر ظاہری اور خفیہ سازش سے آگاہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’دوستی نبھانا جانتے ہیں لیکن دشمنی کا قرض اتارنا بھی آتا ہے۔‘‘ یہ واضح طور پر پڑوسی دشمن کو انتباہ ہے جس نے دشمنی کے کئی قرض چڑھا رکھے ہیں۔ 6 ستمبر 1965ء کو پاکستان پر اچانک فوج کشی نہ دشمنی کی ابتداء تھی، نہ اختتام۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بنانے کی ذمہ داری بھارتی وزیراعظم نریندر مودی لے چکے ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ نریندر مودی بلوچستان کو بھی بنگلا دیش بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ لیکن باعث اطمینان بات یہ ہے کہ پاک فوج چوکس ہے اور دشمنوں سے باخبر بھی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کے رہنما فوج کو ملک کا دفاع کرنے دیں اور اندرنی معاملات اور تنازعات میں فوج کو نہ گھسیٹیں۔ جنرل راحیل نے نظام میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے سول حکومت کو بھی توجہ دلائی ہے ۔ اور کہا ہے کہ قوانین اور نظام انصاف کی کمزوریاں دور کی جائیں۔ یہ اندرونی استحکام کے لیے لازمی ہے۔