ایم کیو ایم پر پابندی کی تجویز ؟

142

ایم کیو ایم کا شمار پاکستان کی ان جماعتوں میں ہوتا ہے جس نے اپنے قیام کے مختصر عرصے میں کامیابیوں اور ناکامیوں کے اتنے نشیب وفراز دیکھے ہیں کہ اتنا مدوجذر شاید ہی پاکستان کی کسی اور جماعت کے حصے میں آیاہوگا۔ایم کیوایم نے 1984میں مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیاتھالیکن اسے جلد ہی اپنے وجود سے مہاجر کا سابقہ ہٹا کر متحدہ کا ٹانکا لگانا پڑا تھا۔اسی کی دہائی بلا شبہ ایم کیو ایم کے عروج کا زمانہ تھا ۔یہ وہ دور تھا جب وطن عزیز پر جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا سورج نصف النہار پر تھااور جنرل ضیاء الحق پیپلز پارٹی کے قائد ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھانے اور ان کے سارے خاندان کو جلاوطنی پر مجبور کر نے کے باوجود سیاسی لحاظ سے پیپلز پارٹی کا وجود ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔یہی وہ موقع تھا جب جنرل ضیاء الحق کے ذہن رسا میں یہ بات آئی کہ اگر وہ پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں کوئی ڈینٹ لگانا چاہتے ہیں تو انہیں سندھ کے شہری علاقوں میں ایک متبادل سیاسی قوت کے طور پر ایم کیو ایم کی داغ بیل ڈالنی چاہیے ۔ یہ حقیقت شاید ہی کسی سے پوشیدہ ہوگی کہ ایم کیو ایم کو آج جو لوگ برا بھلا کہہ رہے ہیں اور جو اس پر پابندی کے مطالبات کر رہے ہیں سنجیدہ حلقوں کی جانب سے ایسے مطالبات پچھلی کئی دہائیوں سے کیے جاتے رہے ہیں لیکن ان پر کسی نے بھی کان دھرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جس کا خمیازہ اہل کراچی پچھلی تین دھائیوں سے بوری بند لاشوں، کاروبار کی تباہی اور لوٹ مار کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
کراچی جسے روشنیوں کا شہر اور عروس البلاد کہاجاتا تھا ایم کیو ایم کے ظہور اور عروج کے بعد سے بھتا خوری،ا غواء برائے تاوان،ٹارگٹ کلنگ اور قبضہ مافیا گروپوں کے رحم وکرم پرہے اور اب یہ اندھیروں اور لاشوں کا شہرکہلایا اور سمجھا جاتا ہے۔ سندھ کے سابق گورنر اور پاکستانیت کی عملی تصویر حکیم محمد سعید اور صلاح الدین جیسی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ سے لیکر بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں پانچ سو سے زائد مزدوروں کو جلائے جانے تک کے واقعات میں ایم کیو ایم کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت اور اس ضمن میں بعض عدالتی فیصلے سامنے آنے کے بعد بھی پتا نہیں مقتدر حلقے ایم کیو ایم کو مزید گل کھلانے کی کھلی چھٹی نہ جانے کیوں دیتے رہے ہیں۔ 1992 اور 1996میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشنز کے دوران اس کے دفاتر سے جناح پور کے نقشوں کی برآمدگی اور یہاں قائم ٹارچر سیلوں کے ثبوت سامنے آنے اور کراچی کو طاقت کے ذریعے یرغمال بنانے اور یہاں خوف اور دہشت کی فضاء برقرار رکھنے میں جتنی بار ایم کیو ایم کا نام سامنے آیا ان حقائق نیز منی لانڈرنگ،ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث ہونے کے تمام تر ڈاندوں کا الطاف حسین کے ساتھ ملنے کو مد نظر رکھتے ہوئے نہ صرف الطاف حسین پر بہت پہلے ملک سے غداری اور اسے پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا جانا چاہیے تھا بلکہ ایم کیو ایم کی قیادت کو ماضی میں الطاف حسین کے حکم پر کراچی میں آگ اور خون کی ہولی کھیلے جانے پر اہل کراچی اور متاثرہ خاندانوں سے معافی مانگتے ہوئے آئندبر سر زمین اور صاف ستھری سیاست کرتے ہوئے تمام جرائم پیشہ گروہوں سے واضح اعلان لا تعلقی کا اعلان بھی کرنا چاہیے تھا۔لیکن پتا نہیں کن مصلحتوں کے تحت متعلقہ ادارے ایم کیو ایم سے ایسا کوئی مطالبہ اب تک منوانے میں نہ جانے کیوں ناکام رہے ہیں۔ شاید ان کو 22اگست کا انتظار تھا جب الطاف حسین نے ساری دنیا کے سامنے علی الاعلان پاکستان کے خلاف وہ نعرے لگوائے۔
ایم کیو ایم میں اختلافات کی وجہ سے مختلف دھڑوں کی علیحدگی پہلے بھی ہوتی رہی ہے جس سے ایم کیو ایم کو تو کبھی کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا البتہ جو لوگ اس سے الگ ہوتے رہے ہیں ایم کیو ایم ان کا ناطقہ ضرور بند کرتی رہی ہے۔اس پس منظر میں پاک سرزمین پارٹی کے وجود میں آنے کے متعلق عمومی رائے یہی ہے کہ اس سے ایم کیو ایم پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔البتہ جہاں تک ایم کیو ایم سے الطاف حسین کو مائنس کرنے کا تعلق ہے یہ کوئی چھوٹا فیصلہ نہیں ہے۔کیا کچھ عرصہ پہلے تک کوئی یہ سوچ بھی سکتا تھا کہ الطاف حسین جس کے ایک اشارے پر پوراکراچی بند ہو جاتا تھا اور جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ قائد کا جو غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے آج اس قائد سے پوری ایم کیو ایم نے نہ صرف برات کا اظہار کردیا ہے بلکہ اپنے آئین اور جھنڈے تک سے اس کا نام کھرچ دیا ہے جو یقیناً کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
ایم کیو ایم نے اب تک کراچی کو یرغمال بنائے رکھنے اور یہاں آگ اور خون کا کھیل جاری رکھنے میں جو شرمناک کردار ادا کیا ہے اس کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ایم کیو ایم پر پابندی کی تجویز میں بظاہر کافی وزن نظر آتا ہے لیکن دوسری جانب یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اگر مائنس الطاف حسین فارمولے سے ایم کیو ایم کی تطہیر اور اصلاح ہو سکتی ہے تو یہ بھی کوئی تاوان کا سودا نہیں ہوگا ۔کیوں کہ اگر ایم کیو ایم پر فوری پابندی لگائی گئی تو اس سے کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں جو سیاسی خلا پیدا ہوگا اسے کسی متبادل سیاسی قوت کے بجائے ایم کیو ایم کے باغی عناصر تشدد اور بغاوت کو ہوا دے کر پر کرنے کی کوشش کریں گے جس کی قیمت لامحالہ اہل کراچی سمیت پورے ملک کو افراتفری اور بدامنی کی صورت میں ادا کرنی پڑے گی۔لہٰذا فی الحال ایم کیو ایم پر پابندی کی تجویز کے بجائے مائنس الطاف حسین فارمولے پراکتفا کرنا ہی ایک مناسب آپشن ہوگا۔