سری نگر مظفر آباد تجارت کی بندش

121

سری نگر اور مظفر آباد کے درمیان تجارت کی معطلی کو دوماہ گزر گئے ہیں۔ ہنوز تجارت کی بحالی کا کوئی امکان نہیں۔ حریت کانفرنس آزادکشمیر شاخ اور وزیر اعظم راجا فاروق حیدر خان موجود ہ صورت حال میں تجارت کی مخالفت کرچکے ہیں۔ پہلے پہل تاجروں کی طرف اس تعطل پر کچھ اضطراب ظاہر کیا جاتا تھا بعد میں یہ آوازیں بھی خاموش ہوگئیں۔ اب آزادکشمیر کی طرف سے تجارتی عمل میں شریک تاجروں کی طرف سے کہا گیا کہ جب تک مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ تجارت بحال نہیں کی جا سکتی۔ فی الوقت منقسم کشمیر کے دونوں حصوں میں تجارت کا عمل معطل ہونے سے لوگوں میں بہت سے خدشات بھی پائے جاتے ہیں جن میں یہ فکرمندی بھی ہے کہ یہ سلسلہ سری نگر مظفر آباد بس سروس کی مستقل بندش تک دراز نہ ہو۔ گو کہ کنٹرول لائن پر اسٹیٹس کو برقرار رکھتے ہوئے تجارت اور محدود آمدورفت کسی کشمیری کا محبوب ومطلوب نہیں رہا مگر گزشتہ دہائی میں جب امریکا کے دباؤ اور پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے نتیجے میں کنٹرول لائن پر پہلے آمدورفت اور بعد ازاں محدود تجارت شروع ہوئی تھی تو یہ برسہا برس سے گھٹن اور حبس کا شکار وادی کشمیر کے عوام کے لیے تازہ ہوا میں سانس لینے کے لیے ایک کھڑکی کھلنے کے مترادف تھا۔ یہ تجارت اور آمدورفت بے ساختگی اور آئیڈیل کی سطح تک کبھی نہ پہنچ سکی نہ ہی اس نے منقسم کشمیری خاندانوں کی مشکلات کو حقیقی طور پر حل کیا مگر اس سے وادی میں ایک امید بندھ چلی۔ اس منقسم خاندانوں کے درمیان ملن میں آسانی پیدا ہوئی۔
کنٹرول لائن کے ذریعے بس سروس اور ٹرکوں کا فائدہ تب ہی تھا جب یہ کڑے ضابطوں اور بندشوں سے آزاد ہوتا۔ ایک منقسم گھرانے کا فرد کسی بھی وقت سفری دستاویز او رریاست کی شناختی علامت دکھا کر کنٹرول لائن پار کر جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ دونوں حصوں کا سفر کڑی پابندیوں کی زد میں رہا اور تجارت پر تو اول اول لاہور اور دہلی کے تاجروں کا کنٹرول رہا۔ جو کشمیری تاجروں کا محض نام ہی استعمال کرتے رہے۔ اس تجارت کی حیثیت بھی علامتی تھی۔ اب مقبوضہ کشمیر میں ایک زوردار تحریک مزاحمت چل رہی ہے وادی کا بڑا حصہ کرفیو کی زد میں ہے، کرفیو کے دوران چڑیا پر نہیں مار سکتی۔ پچاس دن بعد سری نگر میں کرفیو اُٹھایا گیا مگر نوجوانوں کی ٹولیاں سڑکوں پر نکل آئیں اور آزادی کے حق میں نعرے لگائے جانے لگے جس کے بعد وادی میں دوبارہ کرفیو نافذ کیا گیا۔ موجود ہ حالات میں دونوں حصوں میں آمدورفت ممکن نہیں رہی مگر یہ تعطل عارضی ہونا چاہیے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ وادی کشمیر کے فطری دھاروں کا رخ مسلم برصغیر کے ان علاقوں کی طرف رہا ہے جو آج پاکستان کا حصہ ہیں۔ وادی کے عوام کا رخ امرتسر اور دہلی کے بجائے ہمیشہ لاہور اور راولپنڈی اور پھر پشاور اور کابل اور بخارا وسمرقند کی وسعتوں کی جانب رہا ہے۔ راولپنڈی کشمیریوں کی فطری تجارتی منڈی اور لاہور ان کا تہذیبی اور سرمائی مرکز رہا ہے۔ جہاں کشمیری نوجوانوں، اہل دانش اور فنکار علم اور کسب کی پیاس بجھانے کے لیے جاتے تھے۔ کشمیر پر بھارت کے قبضے کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ کشمیریوں کی ذہنی اُڑان کا سفر رک گیا۔ کشمیریوں نے خود خول میں بند کر دیا وہ دہلی اور امرتسر کی جانب گئے مگر بہت مجبور ی کے عالم میں اور بوجھل قدموں کے ساتھ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی فطری اُڑان کا راستہ سری نگر راولپنڈی روڈ بند ہو چکی تھی۔ اب یہ کھڑکی کھلی ہے تو وادی کو تازہ فضاؤں میں سانس لینے کا موقع ملا ہے اس لیے کسی بھی قوت کو وقتی طور پر جذبات سے مغلوب ہوکر اہل وادی کو اس سہولت سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔ بات تجارت اور آمد ورفت کی نہیں بات علامتوں کی ہے اور قوموں کی زندگی میں کبھی کبھار علامتوں اور استعاروں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور وہ زمانے انہی علامتوں کے سہارے گزار لیتی ہیں یہاں تک کہ بدلتا ہوا وقت خوش قسمتی بن کر ان کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔