سزائے موت سے مرد مسلمان ڈر نہیں سکتا

134

ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے
دشنام تو نہیں ہے، یہ اکرام ہی تو ہے

پاکستان سے محبت کا اکرام سجائے ایک اور شہید وفا اپنے ربّ کے حضور حاضری کے لیے رخصت ہوئے۔ قاتل حسینہ کے انتقام کی آگ نہ جانے کب سرد ہوگی۔ بھارت کے ایما پر اس نے پھانسی گھاٹ سجا رکھا ہے۔ یہ بھارت کی چاہ ہے کہ بنگلا دیش اسلامی قیادت سے محروم ہو جائے سو حسینہ واجد نے قتل عام جاری رکھا ہے۔
بنگلا دیش کے نام نہاد جنگی ٹریبونل نے 1971 کی جنگ میں جنگی جرائم کا الزام لگا کر میر قاسم علی کو 2014 میں پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ الزام میں کہا گیا کہ وہ چٹا گانگ میں البدر کے کمانڈر تھے اور انہوں نے مکتی باہنی کے لوگوں کو قتل کیا۔ ان سے پہلے پانچ اور راہ نماؤں کو بھی فوجی ٹریبونل کے ذریعے پھانسی کس سزا دی جا چکی ہے بھارت کی تمناہے کہ بنگلا دیش پر مکمل کنٹرول کرنے سے پہلے اسلامی قیادت کو حسینہ واجد کے ذریعے قتل کرا دے تاکہ بھارت کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی نہ رہے۔
64 سالہ میر قاسم علی بنگلا دیش جماعت اسلامی کے امیر ترین شخص تھے۔ کاروباری دنیا میں انہیں بنگلا دیش کا ٹائیکون کہا جاتا تھا۔ ڈیجیٹل میڈیا کارپوریشن کے سربراہ، اسلامی بینک کے سابق ڈائریکٹر تھے۔ ابن سینا ٹرسٹ اور رابطہ عالم اسلامی کی بنیاد رکھنے والوں میں ان کا نام آتا ہے۔ جماعت اسلامی بنگلا دیش کی مالی امداد میں سب سے آگے تھے۔ ان کا یہ فلاحی کردار بھارت اور اس کی پٹھو جماعت کو کھٹکتا تھا ان کی اور ان سے پہلے دیگر قائدین کی پھانسی دراصل اسلامی قیادت کے خاتمے کی کوششیں ہیں۔
میر قاسم علی کے بیٹے میر احمد بن قاسم کو بنگلا دیشی فورسز نے حراست میں لے کر غائب کردیا تھا۔ وہ اپنے والد کی لیگل ٹیم کا حصہ تھے اور ان سزاؤں اور پھانسیوں کو موثرطور پرتنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔اس دوران میں جماعت اسلامی کے متعدد راہ نماؤں کے بیٹوں کو اغوا کرنے کے واقعات سامنے آچکے ہیں ۔
بے قصور اور معصوم اولاد کے ذریعے والدین کو دباؤ میں لانا ظالموں کا پرانا ہتھکنڈہ ہے۔ غازی آباد قاسم پورہ کے سپرٹینڈنے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ عوامی لیگ نے آخری وقت وفد کی صورت میں میر قاسم علی سے ملاقات کی۔ تاکہ انہیں رحم کی اپیل دائر کرنے پر رضا مند کرسکیں ۔ انہیں یہ پیشکش بھی کی کہ رحم کی اپیل دائر کرنے کی صورت میں ان کی جاں بخش دی جائے گی اور ساتھ ان کا مغوی بیٹا بھی صحیح سلامت گھر واپس پہنچ جائے گا۔ لیکن میر قاسم علی نے صاف انکار کردیا۔ انہوں نے سنت ابراہیمی کی پیروی میں اپنی اور اپنے بیٹے کی قربانی کا راستہ چنا۔
اللہ ان دونوں پر اپنا کرم خاص فرمائے اور جوان رعنا ایڈووکیٹ احمد بن قاسم کو ظالموں کے شکنجے سے نجات دلائے۔ بنگال کی سرزمین عزیمت، شجاعت اور شہادت کی عظیم داستانیں رکھتی ہے۔ حیدر علی اور ٹیپو سلطان سے لے کر میر قاسم علی تک یہ قافلہ ہے جو تھما ہے نہ تھمے گا۔ دھوکا ، فریب اور جھوٹ کے ذریعے ہندو بنیے کو اگر کوئی کامیابی ملی ہے تو وہ عارضی ہے۔ شہادتوں کے اس قافلے کے کیا اثرات ہوں گے۔ اس سوال کا مکمل جواب مستقبل کا مورخ دے گا۔ ابھی سفر جاری رہے گا ۔اور حقائق یہ ہیں کہ بنگلا دیش کے عوام اور وہاں کی انسانی حقوق کی تنظیمیں ناراض ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ حسینہ واجد کا قائم کردہ جنگی ٹریبونل نہ انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہے نہ بین الاقوامی معیار پر پورا اترتا ہے۔سزائے موت کا یہ سلسلہ جو ٹریبونل دے رہا ہے۔ اس کے سربراہ جسٹس سریندر سمار سنہا ہیں۔ جو انتہائی متعصب ہندو ہیں۔ 1951ء میں پیدا ہونے والے سریندر کمار 1971ء میں انڈیا فرار ہوگئے تھے جہاں مکتی باہنی میں شمولیت اور تربیت کے بعد چاٹ گام واپس آئے ۔ اب پاکستان سے نفرت اور مخالفت کے تحت عاشقان پاکستان کو موت کی سزائیں بانٹ رہے ہیں ۔
بنگلا دیش کے عوام حسینہ واجد کے ان فیصلوں پر ناراض ہیں۔ وہ بھارت کی کالونی بننا نہیں چاہتے۔ بھارت کے ساتھ سرحدی تنازع اور پانی کے معاملے میں نا انصافیاں انہیں مزید ناراض کررہی ہیں ۔
چند سال قبل 2011میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اخبارات کے مدیروں کے ساتھ ایک نشست میں اس بات کا اظہار کیا تھا ک ’’بنگلا دیش میں کم از کم چالیس فی صد عوام بنگلا دیش جماعت اسلامی کے ساتھ ہیں اور وہ بھارت کے شدید مخالف ہیں لہٰذا بنگلا دیش کا لینڈ اسکیپ کسی بھی وقت بدل سکتا ہے۔
جماعت اسلامی قیادت کو پھانسیوں کی یہ سزائیں اس ہدف کو ظاہر کرتی ہیں۔ بھارت نواز حسینہ واجد بھارتی خواہشات پر یہ ظالمانہ فیصلے کررہی ہیں۔ یہی نہیں اس نے اپنے ہی ملک کو دوبارہ ہندو کی غلامی دینے کا مشن اپنا رکھا ہے۔ بھارتی تحریک آزادی کے لیڈر چندر بوسن کی پوتی شرمیلا بوسن ہندو بھی ہیں اور بنگالی بھی پھر مغرب میں مقیم ہیں ۔ انہوں نے 1971کے نسلی تشدد کے واقعات پر تحقیقی کتاب ’’ڈیڈ ریکنگ‘‘ لکھی ہے۔ جس میں وہ مکتی باہنی کو اس نسلی تشدد کا ذمے دار قرار دیتی ہیں۔ جس میں غیر بنگالی عورتوں اور بچوں کو المناک حیوانیت کے ساتھ قتل کیا گیا۔ ساتھ ہی وہ اس بات کو افواہ قرار دیتی ہیں کہ تیس لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا گیا۔ بقول ان کے یہ تعداد کسی گنتی یا جائزے کی بنیاد پر مبنی نہیں ہے اور نہ ہی کسی سرکاری رپورٹ میں دی گئی ہے۔
وہ جو اپنا خون بہا چکے ان کے لیے اٹھنے والی یہ آواز اندر کی گواہی ہے۔ لیکن جن کو گواہی دینی چاہیے تھی وہ چپ سادھ کر بیٹھ گئے۔ نہ مدعی نہ شہادت ، حساب پاک ہوا۔ ایک چپ تھی جو اس وقت اختیار کی گئی اور ایک چپ ہے جو اب طاری ہے۔ حکومت پاکستان کی مجرمانہ خاموشی، عالمی فورم پر معاملے کو اٹھانا لازم ہے۔ جب کہ اس سلسلے میں معاہدہ موجود ہے ۔ معاہدے کی خلاف ورزی پر حکومت پاکستان کو بین الاقوامی عدالت کارخ کرنا چاہیے۔ تاکہ قیمتی زندگیوں کو بچایا جاسکے اور پھانسیوں کے اس سلسلے کے آگے روک لگائی جاسکے۔ میڈیا کو بھی اپنے کردار کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ جہاں پاکستان سے محبت اور وفاداری میں پھانسی کے پھندے چومنے والے اکرام چھوڑ کسی خاص توجہ کے لائق بھی ہیں ٹھہرے۔